اسرائیل اور حماس کے درمیان یروشلم میں ہفتوں سے جاری کشیدگی اور اس کے بعد تصادم کے نتیجے میں منگل کے روز تناؤ میں مزید شدت آ گئی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں متعدد جنگجو اور عام شہری ہلاک ہو گئے جبکہ حماس کے عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل میں سینکڑوں راکٹ فائر کیے ہیں جن میں دو اسرائیلی خواتین ہلاک ہو گئیں۔
پیر کی شام کے بعد سے اب تک غزہ میں چھبیس فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نو بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں فضائی حملوں میں ہوئیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کم از کم 16 عسکریت پسند تھے۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے راکٹ یونٹ کے ایک کمانڈر کو، جس کی شناخت سامح المملوک کے طور پر کی گئی ہے، اسی فضائی حملے میں ہلاک کر دیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اسلامی جہاد نے بھی تصدیق کی ہے کہ غزہ سٹی میں ایک اپارٹمنٹ میں بمباری کے نتیجے میں اس کے مسلح ونگ کے تین سینئر ارکان مارے گئے ہیں۔
ادھر عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے غزہ سے اسرائیل کے شہر اشکیلون پر فائر کیے جانے والے راکٹوں میں دو اسرائیلی خواتین ہلاک ہو گئیں۔ تشدد کی حالیہ لہر کے دوران پہلی بار اسرائیلیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پیر کی شام کے بعد سے اب تک حماس کے حملوں میں کم از کم دس دیگر اسرائیلی زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان اموات کے بعد کہا کہ حکام نے غزہ کی پٹی پر حماس اور اسلامی جہاد کے خلاف حملوں کی تعداد اور ان کی قوت میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کی کارروائی میں شہریوں کی اموات پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے اور عیدالفطر کی مناسبت سے منائی جانے والی تقریبات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل کی فوج نے دو خواتین کی ہلاکتوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ غزہ کی سرحد پر مزید فوجی دستے بھجوا رہا ہے۔ وزیردفاع نے پانچ ہزار ریزور فوجیوں کو سرحد پر تعیناتی کا حکم دیا ہے۔
تازہ ترین راکٹ حملوں اور فضائی حملوں کا سبب پیر کے روز فلسطینی شہریوں اور اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کے درمیان گھنٹوں پر محیط جھڑپیں ہیں جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقام الاقصیٰ کے اندر لڑائی بھی شامل ہے۔
بڑھتے ہوئے تشدد کو دیکھتے ہوئے عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے پوری رات اسرائیل بھر میں مظاہرے کیے اور اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کے فلسطینیوں پر حالیہ حملوں کے خلاف آواز اٹھائی۔
اسرائیل نے درجنوں فضائی حملے کیے ہیں جن میں سے دو میں کثیر منزلہ رہائشی عمارتوں کو ہدف بنایا گیا جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں عسکریت پسند رہائش پذیر ہیں۔ دوپہر کو وسطی غزہ میں ایک عمارت پر اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد خوفزدہ حالت میں ننگے پاوں سڑکوں پر نکل آئے۔
اس سے قبل ایک بلند عمارت پر علی الصبح حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ شہریوں نے بتایا ہے کہ اس حملے میں ایک خاتون اور ان کا انیس سال کا معذور بیٹا اور ایک اور شخص ہلاک ہو گئے۔ محکمہ صحت کے حکام نے بھی ان اموات کی تصدیق کی ہے۔
غزہ میں وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرا نے کہا ہے کہ نو بچوں اور ایک خاتون سمیت ان حملوں میں چھبیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
حملوں میں یہ شدت ایسے وقت میں آئی ہے جب اسرائیل میں سیاسی صورتحال ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے۔
نیتن یاہو مارچ میں ہونے والے انتخابات کے بعد، جن میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے، ملک کے نگران وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے اپنے سخت موقف رکھنے والے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
گزشتہ اختتام ہفتہ الاقصیٰ کے صحن میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ یہ مقام مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین جبکہ یہودیوں کے لیے سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔
کئی دنوں سے اسرائیل کی فوج نے اس مسجد کے صحن میں جمع ہونے والے فلسطینیوں پر آنسو گیس، سٹن گرنیڈ اور ربر کی گولیاں چلائیں جس کے سبب تین سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے۔ پیر کی شام حماس نے غزہ سے اسرائیل کے اندر یروشلم میں راکٹ فائر کیے جس کے بعد سے کشیدگی میں شدت آ گئی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹینینٹ کرنل جوناتھن کنریکس نے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں نے غزہ سے پانچ سو راکٹ اسرائیل میں فائر کیے جن میں سے ایک تہائی یروشلم تک نہ پہنچ سکے اور غزہ کی حدود کے اندر ہی گر گئے۔
حالیہ کشیدگی، مصالحانہ کوششیں اور ردعمل
اسرائیل اور حماس نے سال دو ہزار سات میں غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑی ہیں اور دونوں فریقوں کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
حالیہ برسوں میں جو جھڑپیں ہوئی ہیں عام طور پر چند دن کے بعد ختم ہو جاتی تھیں اور اکثر اوقات قطر، مصر یا کوئی ملک پس منظر میں رہتے ہوئے مصالحانہ کردار ادا کرتا تھا۔
مصر کے عہدے دار نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک اس بار بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن حکام نے حساس سفارتکاری کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یروشلم میں اسرائیل کے اقدامات نے ان کی کوششوں کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ ایک فلسطینی عہدیدار نے بھی اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔
قاہرہ میں مصر کے وزیرخارجہ سامح شکری نے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کو بتایا ہے کہ ان کے ملک نے اسرائیل اور دیگر ملکوں سے بات کی ہے کہ یروشلم اور فلسطینی علاقوں میں جاری تشدد میں کمی لائے جائے لیکن ان کے بقول اس وقت تک ان کو خاطر خواہ مثبت ردعمل نہیں ملا ہے۔ وزیرخارجہ نے مقدس شہر میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے۔
دوسری جانب ترکی اور پاکستان جیسے مسلمان ممالک کی قیادت نہ صرف اسرائیلی حملوں کی مذمت کر رہی ہے بلکہ مختلف مقامات پر احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔
ترک صدر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں طیب اردوان نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے طاقت کے استعمال کو رکوانے کے لیے ٹیلی فون ڈپلومیسی میں مصروف ہیں۔ پیر کے بعد سے ترک صدر نے ملیشیا، قطر، کویت اور اردن کے راہنماوں سے گفتگو کی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے منگل کے روز کہا ہے کہ انہوں نے اپنے وزیرخارجہ کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ ترکی اور سعودی وزرائے خارجہ سے رابطہ کریں اور اس بارے میں تبادلہ خیال کریں کہ کس طرح مل کر رد عمل ظاہر کیا جائے۔
مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کا بھی ایک ہنگامی اجلاس منگل کے روز سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوا۔ مشترکہ اعلامیے میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو تشدد میں اس اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والے حملوں کو روکا جائے۔
عرب لیگ کے سربراہ نے بھی حالیہ تشدد میں اضافے کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ احمد عبدل غیث نے، جو بائیس رکنی اتحاد کے جنرل سیکریٹری ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ کے وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے گزشتہ روز ایک بیان میں اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے دونوں فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ صورتحال کی شدت میں کمی لائیں اور ایک دوسرے کے خلاف حملے بند کریں۔ تاہم انٹنی بلنکن نے اسرائیل کے علاقوں میں حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔