فلسطینی شہری اس اقتصادی منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جسے وائٹ ہاؤس کی جانب سے فلسطینی علاقوں اور پڑوسی عرب ریاستوں میں سرمایہ کاری کے لیے پچاس ارب ڈالر کے بندو بست کے لیے لانچ کیا جا رہا ہے۔
یہ منصوبہ، جسے منگل کے روز بحرین میں ایک کانفرنس میں ظاہر کیا گیا، امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں امن کے اس منصوبے کا حصہ ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدی کا بہترین سمجھوتہ قرار دیا ہے۔ لیکن فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ کوئی بھی اقتصادی منصوبہ کسی سیاسی تصفیے کے بغیر عمل میں نہیں آ سکتا
فلسطینیوں نے صدر ٹرمپ کے خوشحالی کے لیے امن نامی اقتصادی منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی ان کے پتلے جلائے اور اسرائیلی فورسز سے ان کی جھڑپیں ہوئیں۔
یہ منصوبہ فلسطینی علاقوں اور تین پڑوسی عرب ریاستوں میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ایک بڑا ہدف متعین کرتا ہے ۔ یہ مشرق وسطیٰ میں اس امن منصوبے کا اقتصادی حصہ ہے جسے صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سینچری قرار دیا ہے اور جس کی قیادت ان کے داماد، وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا فلسطینیوں کے لیے براہ راست پیغام یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ ماضی میں آپ کو نظر انداز کرنے والوں نے جو کچھ بتایا، صد ر ٹرمپ اور امریکہ نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے۔
یہ منصوبہ منگل کے روز بحرین کے دار الحکومت مناما میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ظاہر کیا گیا، جس میں نہ تو فلسطینی اور نہ ہی اسرائیلی عہدے داروں نے شرکت کی۔
مجوزہ فنڈنگ کا زیادہ تر حصہ خلیج فارس کے ملکوں کی جانب سے گرانٹس اور نجی ذرائع سے آئے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اگر امریکہ کوئی فنڈز فراہم کرے گا تو وہ کتنے ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہمیں اقتصادی مدد لانا ہو گی، کیوں کہ فلسطینیوں کے پاس سرمایہ نہیں ہے اور ہمیں فلسطینیوں کی کچھ مالی مدد کرنا ہو گی۔ اور آپ کا ایک گروپ مشرق وسطیٰ کے ان کچھ ملکوں میں شامل ہے، جن کے پاس سرمایہ ہے تو وہ اس امن منصوبے میں ایک کردار ادا کریں گے۔
کچھ مبصرین اسے ایک ناکام منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ کارنیگی این ڈومیٹ فار انٹر نیشنل پیس کی وزیٹنگ فیلو اور فلسطینی نیٹ ورک الشبا کاکی زاہا حسن کہتی ہیں کہ آپ کو وہاں فنڈنگ کے لیے کچھ اچھی اچھی باتیں سننے کو مل رہی ہیں اور اسرائیلی اس میں شرکت نہیں کر رہے۔ فلسطینی اس میں شرکت نہیں کر رہے اور کوئی بھی اس کانفرنس میں فنڈز پیش نہیں کر رہا۔
فلسطینی اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں کیو ں کہ یہ ریاست یروشلم کی حیثیت اور پناہ گزینوں کے مستقبل سے متعلق ان کے مطالبوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ مناما میں یا کسی بھی جگہ جو لوگ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ہم صرف بین الاقوامی قانون اور دو ریاستی تصور کی بنیاد پر کسی تصفیے کی صورت میں ان سب کا خیر مقدم کریں گے۔
وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ اس منصوبے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ فلسطینی کس طرح منصوبے کو سنے بغیر ہی اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ یہ آگے بڑھنے کا طریقہ نہیں ہے۔
اس منصوبے کے بہت سے پراجیکٹس کا دار و مدار اسرائیلی فلسطینی امن معاہدے پر ہے۔
لیکن امریکی عہدے دار نومبر تک جب تک کہ اسرائیلی انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہو جاتی، اس منصوبے کے سیاسی حصے کو ظاہر نہیں کر رہے۔ کچھ تجزیہ کار اسے ایک سنگین غلطی قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینی پالیسی نیٹ ورک الشباکا کی زاہا حسان کہتی ہیں۔
’اگر ہم یہ نہیں جانتے کہ فلسطینی سرزمین کہاں ہے، ہم یہ نہیں جانتے کہ سرحدیں کہاں ہیں، تو ان میں سے کسی بھی پراجیکٹ پر عمل نہیں ہو سکتا اور یہ سب ایک طرح سے خام خیالیاں ہیں جو وائٹ ہاؤس یہ بتائے بغیر وہاں پیش کر رہا ہے کہ انہیں اصل میں کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
کانفرنس میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی شمولیت کا فقدان امن کی کوششوں میں طویل عرصے سے جاری تعطل کو پوری قوت سے دوبارہ شروع کرنے میں ٹرمپ انتظامیہ کو ددرپیش مشکلات کو اجاگر کرتا ہے۔