اس ہفتے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں جس خبر نے تہلکہ مچائے رکھا وہ ہے پانامہ پیپرز کے انکشافات ۔۔۔۔ پانامہ پیپرز لیک نام کے حالیہ سکینڈل کی وجہ بننے والی پانامہ کی قانونی فرم موسیک فونسیکا کاروباری شخصیات اور اداروں کو قانونی اور تجارتی مشورے دیتی ہے اور اپنے کلائنٹس کے لیے دوسرے ملکوں میں کمپنیاں قائم کرکے انہیں چلاتی ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں واشنگٹن میں قائم ایک صحافتی تنظیم 'انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس' یا (آئی سی آئی جے) نے دعوی کیا ہے کہ موسیک فونسیکا نام کی اس فرم کی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزان کے ہاتھ لگی ہیں، جن پر ایک سال تک تحقیق کے بعد انہوں نے پانامہ پیپرز کے نام سے اپنی آن لائن رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کی بااثر شخصیات نے پیسے کو بیرونِ ملک منتقل کرنے اور غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے اس فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔
پاکستان کی کچھ اہم شخصیات کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔ جن میں وزیر اعظم نواز شریف کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا نام ، پیپلز پارٹی کے دور کے سابق وزیر داخلہ پاکستان رحمان ملک کا نام ، لاہور ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس اور ایک ریٹائرڈ جج کا نام اور کئی اہم کاروباری شخصیات کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں ۔
پاکستانی روزنامہ دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ انٹرنیشنل کنسورشئیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس نام کے اس پراجیکٹ کا حصہ تھے جس نے پانامہ پیپرز پر تحقیق کی ہے ۔ وی او اے اردو کے پروگرام انڈی پنڈنس ایونیو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے لاکھوں دستاویز دیکھی ہیں ۔ ایک کیس کے لئے کئی کئی ڈاکیومنٹس دیکھی گئیں ۔انکشافات ٹھوس ہیں ۔ کسی نے ابھی تک ان کی صحت سے انکار نہیں کیا ۔ بہت سے کیسز میں لوگوں کے پاسپورٹ کی کاپیاں، گھر کا ایڈریس، اور فون نمبرز تک اس میں موجود ہے ۔ میں ذاتی طور پر کسی ابہام کا شکار نہیں ہوں ان انکشافات کی صحت کے حوالے سے ۔ دوسو پاکستانیوں کے نام اس لسٹ میں ہیں ، مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ کسی نے پاکستان کا ، کسی نے بیرون ملک کا کوئی ایڈریس دے رکھا ہے۔ ایک حاضر سروس جج فرخ عرفان کا نام دبئی سے سامنے آیا۔ اس کمپنی کی شئیر ہولڈر ان کی بیٹی ہیں ۔ ریٹائرڈ جج ملک قیوم کا کوئی ایڈریس دستاویز میں شامل نہیں ہے ۔ ایک ذولفقار لاکھانی ہیں ، ان کا پتہ ہمیں آخری دنوں میں چلا ، ان کی ایک بےنامی کمپنی تھی۔ بےنامی کمپنی وہ ہوتی ہے، جس کے اصل مالک کا نام شئیر سرٹیفکیٹس میں نہیں آتا ۔ اس کے لئے لافرم کی طرف سے کوئی اور ڈائیریکٹر نامزد ہوتا ہے۔عمر چیمہ کے بقول، مریم نواز کے نام پردو بے نامی کمپنیاں ہیں ۔
تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے رقم آف شور کمپنیوں میں منتقل کی ہے، تو وہ کہاں سے آئی ہے ۔ وہ آف شور کمپنیاں کب بنی تھیں ، وزیر اعظم شریف نے اپنے ٹیکس ڈیکلیریشنز میں یا انتخابی میدان میں اترتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثہ جات میں کیا یہ سب کچھ ظاہر کیا تھا؟ اگر نہیں کیا توکیا انہوں نے اپنے ٹیکسز اور اثاثے چھپائے ہیں؟ پاکستان کے قانون کے مطابق یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اگر وزیر اعظم کے بیٹے کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں سال میں آف شور کمپنی کا کنٹرول سنبھالا ،لیکن اس کا ٹریل کہیں اور جاتا ہو، اور اس میں وزیر اعظم کا نام آتا ہو، یا دیگر خاندانوں کا نام آتا ہو تو وہ قانون شکنی کے دائرے میں آسکتے ہیں ۔ ایسے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن پاکستان میں تہہ تک پہنچنے کا کام اور قانونی چارہ جوئی کا نظام مغربی ملکوں جیسا نہیں ہے ۔ لیکن اس معاملے نے پاکستانی سیاست کے منظر نامے کو ہلا دیا ہے ۔ اور وزیر اعظم اور ان کی جماعت کو بہت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اب اس کی تحقیق کیسے ہوتی ہے۔ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیق کی بات وزیر اعظم نواز شریف کر رہے ہیں ، لیکن اسےکوئی ماننے کو تیار نہیں ۔ کیا وہ اسے چھپانے میں کامیاب ہونگے یا نہیں، اس کا تعلق اس سے ہے کہ سیاسی دباؤ کس حد تک بڑھتا ہے ۔؟ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں خود ایسے لوگ موجود ہیں، جن کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں۔بینظیر بھٹو اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا نام بھی اس لسٹ میں شامل ہے۔ اس لئے جو جذبہ اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے لئے درکار ہے، وہ موجود نہیں ۔ ایاز امیر کے بقول، ’’رحمان ملک تو ڈھٹائی میں مسلم لیگ نواز سے بھی کہیں آگے ہیں ۔ وہ تو کہتے ہیں کہ یہ میرے خلاف را کی سازش ہے ۔ اس کا مطلب یہ سارا پانامہ لیک را نے کیا ہے تاکہ ہمارے سابق وزیر داخلہ کو مطعون کیا جائے‘‘ ۔
وزیر اعظم پاکستان کے صاحبزادے حسین نواز نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی پاکستان کے قوانین میں گنجائش نہ ہو ۔ماہرمعاشیات زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ پانامہ ، دبئی اور بحرین سمیت دنیا بھر میں اس قسم کے آف شور یونٹس موجود ہیں ،جہاں آف شور بینکنگ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کے قوانین و ضوابط مختلف دوسرے سے ہوتے ہیں ، جن کی وجہ سے کوئی نہ کوئی ایسا نظام بن جاتا ہے، جو ان قوانین و ضوابط سے بچنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ زبیر اقبال کے بقول، انیس سو نوے کے بعد سے تین چار مرتبہ ایسے اہم سمجھوتے عالمی سطح پر ہوئے ، جن کی بنا پر معیاری قوانین بنائے گئے تھے ۔ ایسے آخری قوانین دو ہزار دس اور گیارہ میں بنائے گئے، جن کا مقصد تمام دنیا میں اس قسم کے رولز اور ریگولیشنز کو ہم آہنگ کرنا تھا ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کیسے کیا جائے ۔
زبیر اقبال کے بقول، ’’جہاں تک حسین نواز کا یہ کہنا ہے کہ ان کا کوئی عمل قانون کے مطابق ہے یا نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا ۔ میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ کسی آف شور مارکیٹ میں جاتے ہیں تو بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کی آمدنی پر ٹیکس نہ لگے، کیونکہ آف شور مارکیٹس میں کام کرنے والے مالیاتی اداروں پر ٹیکس نہیں ہوتا۔ ایسے معاملات خفیہ ہوتے ہیں ، اور وہاں صرف ٹیکس بچایا ہی نہیں جاتا بلکہ ٹیکس بچانے کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں ۔ جو شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو پیسہ آئے، اسے اس طرح استعمال کیا جائے کہ اس کا کوئی ٹریل باقی نہ رہے۔ اگر ٹریل باقی نہیں رہتا تو اس پر ٹیکس نہیں لگا یا جا سکتا ۔ ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وسائل ملک سے باہر نکالے گئے ہیں ، تو یہ بتانا ہوگا کہ کب نکالے گئے ، کیسے نکالے گئے ہیں ۔ اور وہ پیسہ کہاں سے آیا ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ پیسہ اس وقت بنایا گیا تھا جب نواز خاندان سعودی عرب میں جلا وطنی کے دن گزار رہا تھا ، تو انہوں نے وہاں جو پیسہ بنایا ، اس کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ رقم باہر ٹرانسفر ہو گئی تھی تو پھر اس پر برطانوی رولز اینڈ ریگولیشنز لاگو ہونگے، یا پانامہ کے قوانین لاگو ہونگے۔ یعنی قانونی طور پر اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ یہ وسائل پاکستان میں نہیں ، پاکستان سے باہر پیدا کئے گئے ہیں تو واقعی پاکستان کا کوئی قانون اس پر لاگو نہیں ہوتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے سیاسی طور پر غیر اخلاقی سمجھا جائے ، لیکن قانون کی روسے اس میں کچھ غلط نہیں ہے‘‘ ۔
پاناما پیپرز انکشافات میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک حاضر سروس جج فرخ عابد اور ایک ریٹائرڈ جج عبد القیوم کے نام سے بھی آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔۔اس سوال پر کہ کیا ایک حاضر سروس جج پاکستان میں اتنا کما لیتا ہے کہ ایک آف شور کمپنی میں اپنے اکاؤنٹس بنا لے؟ ، عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج دو ہزار دو میں ایک آف شور کمپنی کے ڈائیریکٹر بنے ، جب وہ وکیل تھے ۔ دوسری کمپنی کے وہ دو ہزار چار میں ڈائریکٹر بنے ۔ ان کمپنیوں کے ذریعے انہوں نے لندن میں جائیداد خریدی ،جو کرائے پر دی گئی ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج بننے کے بعد بھی وہ ڈیڑھ سال تک ان کمپنیوں کے ڈائریکٹر رہے ۔ اسکے بعد انہوں نے خود استعفی دے کر اپنی بیٹی کو ڈائریکٹر بنا دیا۔ ان سے یہ سوال ہونا چاہئے کہ پاکستان میں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں انہوں نے ان کمپنیوں اور ان کے ذریعے خریدی ہوئی جائیداد اور اس کی آمدنی کا ذکر کیا ہوا ہے یا نہیں ۔ پھر یہ پوچھا جائے کہ آپ نے جو برٹش ورجن آئی لینڈ میں جائیداد خریدی اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے ۔یہ قانون سے زیادہ اخلاقی زمہ داری کا سوال ہے۔ یہی سوال شریف خاندان سے پوچھا جا سکتا ہے جو حکمران خاندان ہے۔۔ ورنہ آف شور کمپنیاں تو سب سے زیادہ سیف اللہ خاندان کی ہیں ، لیکن شریف خاندان پر قانونی اور اخلاقی دونوں طرح کے سوال لاگو ہوتے ہیں ۔ وہ میڈیا کو مہارت سے استعمال کرنا جانتے ہیں اس لئے کسی کو حسن اور حسین سے آگے نکلنے نہیں دیا جا رہا ۔ عمر چیمہ کے بقول، ’’حسن نواز کی کمپنی 2007 میں لائیبیریا کے ایک شخص سے پچپن لاکھ پاونڈ میں خریدی گئی۔ حسین نوازکی کمپنی میں مریم صفدراور حسین نوازدونوں شئیر ہولڈر ہیں ۔ لیکن اصل مسئلہ دو دوسری کمپنیوں نیسکول اور نیلسن کا ہے۔ نیسکول انیس سو ترانوے میں اس وقت بنی تھی جب نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ جنوری انیس سو ترانوے میں یہ کمپنی رجسٹر ہوئی اور میاں نواز شریف وزارت عظمی سے جولائی انیس سو پچانوے میں ہٹے ۔دوسری کمپنی ان کی وزارت عظمی سے ہٹنے کے نو ماہ بعد اپریل انیس سو چورانوے میں بنائی گئی ۔ یہ دونوں بے نامی کمپنیاں ہیں ۔ بے نامی کمپنی وہ ہوتی ہے جس میں ڈائیریکٹر اور شئیر ہولڈر اور لوگ ہوتے ہیں اور شئیر سرٹیفکیٹ میں کوئی نام نہیں لکھا ہوتا ۔ دو ہزار بارہ تک برٹش ورجن آئی لینڈ کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں کمپنیوں کا مالک کون ہے ۔ کیونکہ وہاں کے قوانین میں بے نامی کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت تھی ۔ دو ہزار آٹھ میں کچھ نئی قانون سازی ہوئی ، جس کے بعد کمپنیوں کے مالکان کی تفصیلات مانگی گئیں ،نیسکول اور نیلسن کو لیٹر بارہ جون دو ہزار بارہ کو ان کے وکیل کے ذریعے موسیک فونسیکا نام کی لاٗ فرم کی طرف سے جاری کیا گیا ،جس کا ڈیٹا لیک ہوا ہے ۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے بینفشری اونر کون ہیں ۔ کیا ان کے ساتھ کوئی اور کمپنی بھی منسلک ہے اور کیا ان کے ساتھ کوئی ٹرسٹ بھی جڑا ہوا ہے۔ جواب یہ آیا کہ بینیفشل اونر ہیں ۔بینیفیشل اونر کا جہاں بھی نام آتا ہے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اونر شپ خفیہ رکھی گئی ہے‘‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وزیر اعظم مستعفی ہو سکتے ہیں؟ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا ٹوٹ سکتی ہے، وزیر اعظم مستعفی نہیں ہو سکتے ۔ لیکن اس کیس میں کچھ ثابت ہونا رہ نہیں گیا ، وہ آف شور کمپنیوں سےانکار نہیں کر رہے ۔ یہ باتیں پہلے بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیاں تھیں ، جن کے ذریعے انہوں نے لندن میں جائیداد خریدی ، ان پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں ۔ اسحا ق ڈار جو فنانس منسٹر ہیں، انہوں نے نیب میں ایک لمبا چوڑا بیان دیا تھا کہ کس طریقے سے منی لانڈرنگ ہوئی تھی ۔انہوں نے کیسے فلاں فلاں نام سے FORGING کر کے لندن میں اکاونٹس کھولے اور اور کیسے پارک لین میں فلیٹس خریدے، یہ سب کچھ ریکارڈ پر ہے لیکن اس دفعہ فرق یہ ہے کہ یہ ایک انٹرنیشنل سکینڈل بن گیا ہے ۔ جب آئس لینڈ کے وزیر اعظم استعفی دے رہے ہیں، جب ڈیوڈ کیمرون تاویلیں دے رہے ہیں ، جب آسٹرین بینک کے سربراہ استعفی دے رہے ہیں تو یہ شریف خاندان کے لئے پریشانی کی بات ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے خلاف آئی ایس آئی یا فوج کچھ کر رہی ہے یا پیپلز پارٹی یا عمران خان کچھ کر رہے ہیں ۔لیکن اب بھی ان کی کوشش ہے کہ ہر بات کو رد کریں اور ماشااللہ ، انشاللہ ، سبحان اللہ کہہ کرکہیں کہ انہوں نے سب کچھ بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ایاز امیر کے بقول، ’’پاکستان میں کون سا ایسا کمیشن بیٹھا ہے جو حکمراں خاندان پر الزامات کو ثابت کرے گا ۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی جوڈیشل انکوائری کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، تو کیا یہ معجزہ اب ہوگا کہ وہ ان کو مورد الزام ٹہرائیں گے۔؟ اخلاقی طور پر اگرکوئی کوہ ہمالیہ سے بڑا اخلاقی جوازبھی لے کر ان کے سامنے چلا جائے اور کہے کہ وہ استعفی دیں ، تووہ یہ نہیں کریں گے ۔ کیا سیاسی بحران زیادہ بڑھے گا یا نہیں، جو پاکستان کے منظر نامے پر کوئی تبدیلی لا سکے ،ایسا فی الحال نظر نہیں آتا ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ان کی کوشش یہی ہوگی کہ ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتے رہیں اور کہتے رہیں کہ ہم ایک دفعہ پھر سرخرو ہونگے‘‘.
زبیر اقبال کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر مالیاتی نظام میں جو بنیادی تبدیلیاں دو ہزار دس میں ہونے سے رہ گئی تھیں ، انہیں کرنے کی ضرورت ہے، ایسا پاکستان میں بھی کرنا ہوگا تاکہ نئے قوانین اور ان کے نئے پروٹوکول بنیں ، تاکہ اس قسم کے واقعات کم ہو جائیں ۔۔زبیر اقبال کے بقول، یہ سوچنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر حکومت کو عوام سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہے تو ٹیکس کے نظام کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا ، نئے قسم کے ٹیکس قوانین اورٹیکس کا نظام لانا ہوگا ۔ جب تک موجودہ نظام قائم رہے گا ، ٹیکس سے بچنے کے طریقے ڈھونڈے جاتے رہیں گے ۔