وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی منگل کو ہونے والی سماعت میں فریقین کے وکلا نے دلائل دیے جن کے بعد عدالت عظمیٰ نے تین سوالات اٹھاتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ ان درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے جس کے سامنے حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم کو تین کروڑ اور ان کے بیٹے حسن نواز کو دو کروڑ کے تحفے دیے اس سے ان کے والد کے زیر کفالت ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت تھیں لیکن وہ کس کے زیر کفالت ہیں؟
وزیراعظم نواز شریف اپنے اثاثوں کے گوشواروں میں یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔
لیکن تحریک انصاف کے استدلال ہے کہ وزیراعظم دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے اور انھیں منصب کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔
وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 1992ء میں مریم نواز کی شادی کے بعد وہ نواز شریف کی زیر کفالت نہیں رہیں لہذا 2011ء اور 2012ء میں ان کے وزیراعظم کے زیر کفالت ہونے کی بات درست نہیں۔
سماعت کے آغاز پر جماعت اسلامی کے وکیل کی طرف سے اس معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ضرورت پڑی تو کمیشن بھی تشکیل دے دیا جائے گا اور ان کے بقول دیگر اداروں کی طرف سے کارروائی نہ ہونے کے بعد ہی یہ معاملہ سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے تین سوال اٹھائے کہ وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں، مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں اور وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں سچ بولا یا نہیں۔
معاملے کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی جس میں وزیراعظم کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
رواں سال اپریل میں وزیراعظم کے بچوں کے نام آف شور کمپنیاں رکھنے والے افراد کی پاناما لیکس میں شائع ہونے والی فہرست میں آنے کے بعد سے خاص طور پر تحریک انصاف وزیراعظم پر بدعنوانی اور بیرون ملک رقم منتقل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے۔
حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیوں کی فہرست میں وزیراعظم کا نام نہیں ہے اور حزب مخالف اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے۔