افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد امدادی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے گزشتہ کئی ماہ سے بار بار جس بحران سے خبردار کر رہے ہیں ، اس نے ایک عام افغان شہری کے لئے اتنی مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ اپنے ہی بچوں کی ذمہ داری اٹھانا ان کے لئے مشکل ہو گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق،افغان خاتون عزیز گل کے شوہر نے انہیں بتائے بغیر اپنی دس سالہ بچی، شادی کے نام پر فروخت کر دی ہے، تاکہ ملنے والی رقم سے اپنے باقی پانچ بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کرتے تو ہم سب بھوک سے مر جاتے۔۔۔سو ایک کی قربانی دے کر انہوں نے باقی گھروالوں کو بچا لیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی بچے کی قربانی دینے کا یہ سلسلہ افغانستان میں کچھ ماہ سے جاری ہے۔ نومبر کے مہینے میں بھی ایسی ہی خبریں آئی تھیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں لوگوں کی کسمپرسی ، ذہنی اور مالی پریشانیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، جہاں روزگار کی راہیں مسدود ہو رہی ہوں، روزمرہ زندگی کی سہولتیں ناپید اور حکومت ایسی ہے جسے بین الاقوامی برادری نے تسلیم ہی نہیں کیا اور نہ ہی بظاہر وہ عام لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے کوئی اقدامات ہی کر رہی ہے۔
چھوٹی عمر میں شادی طے کرنے کا رواج
اس خطے میں بچیوں کی شادی بہت چھوٹی عمر میں طے کر دینے کا رواج موجود ہے۔ دلہا کے گھر والے رقم کے بدلے شادی پکی کر دیتے ہیں اور لڑکی کم از کم 15 سال کی عمر تک اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہتی ہے۔
مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ انتہائی غربت کے مارے ماں باپ، جو بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتے، لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی لڑکی کو لے جائیں۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں تک کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
گل البتہ ایک ایسی ماں ہیں، جو کہتی ہیں کہ اگرچہ خود ان کی اپنی شادی 15 سال کی عمر میں ہو گئی تھی لیکن اگر ان کی بیٹی قندی گل کو کوئی لے جائے گا تو وہ اپنی جان دے دیں گی۔
گل نے اپنے بھائی اور گاؤں کے بزرگوں کی مدد سے اپنی بیٹی قندی گل کی طلاق کا مطالبہ تو منوا لیا مگر اس شرط پر کہ ان کے شوہر نے قیمت کے طور پر جو ایک لاکھ افغانی لئے تھے جو کہ ایک ہزار ڈالر کے برابر ہیں، واپس کر دیں۔
مگر یہ رقم، خشک سالی اور جنگ سے متاثرہ لوگوں کے اس کیمپ میں رہنے والی گل کے پاس نہیں ہے اور وہ نہیں جانتیں کہ 21 سالہ دولہے کے والدین کو کب تک روک سکیں گی۔
ان کا شوہر اس ڈر سے وہاں سے بھاگ گیا ہے کہ اسے حکام کے حوالے نہ کر دیا جائے۔ طالبان نے حال ہی میں زبردستی شادیوں پر پابندی عائد کی ہے۔
اس کیمپ میں ایک اور شخص حامد عبداللہ بھی، جو چار بچوں کا باپ ہے، شادی کے لئے اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اس رقم سے، چار بچوں کی ماں، اپنی عرصے سے بیمار بیوی کا علاج کروا سکے یا وہ قرض اتار سکے جو اس نے بیوی کے علاج کے لئے لیا تھا۔
تین سال پہلے اس نے اپنی سب سے بڑی بیٹی ہوشران کی شادی طے کرکے کچھ رقم پیشگی حاصل کی تھی ۔ ہوشران اب سات سال کی ہے، جبکہ لڑکے کی عمر 18 سال ہے۔ ہوشران کے بڑے ہونے تک لڑکے والے باقی رقم ادا نہیں کریں گے، چنانچہ عبداللہ کی کوشش ہے کہ اپنی دوسری بیٹی، 6 سالہ نازیہ کی شادی طے کر کے بیس، تیس ہزار افغانی حاصل کر لے۔
عبداللہ کا کہنا ہے،" کیا کریں۔۔کھانے کو کچھ نہیں۔۔۔علاج کے پیسے کہاں سے لاؤں۔"
افغان معیشت اور بیرونی امداد
افغانستان کی معیشت کا انحصار بیرونی امداد پر رہا ہے۔ اگست میں جب امریکہ اور نیٹو کی فورسز ملک سے گئیں اور طالبان ملک پر قابض ہوئے ہیں،اس وقت سے ملکی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔
جنگ اور خشک سالی سے تباہ حال ملک میں طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری نے ماضی کی ان کی حکومت کے دوران سخت گیری اور جبر و ستم کے ریکارڈ کے پیشِ نظر، تسلیم نہیں کیا اور ضمانت چاہی ہے کہ وہ ایسی حکومت بنائیں جو سب طبقات کی نمائندہ ہو، انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کا تحفظ کریں، اور دہشت گرد تنظیموں سے اپنے روابط ختم کرنے کا اعلان کریں، یہ شرطیں پوری ہوں گی تو انہیں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیے جانے اور بین الاقوامی طور پر بھی طالبان حکمرانوں کے ساتھ کوئی لین دین نہ ہونے کے باعث افغانستان میں مالی حالات دگرگوں ہیں۔
سرکاری ملازمین کو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔ نصف سے زیادہ آبادی کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اس پر مستزاد کرونا کی وباء ہے۔
افغانستان میں ورلڈ ویژن نامی تنظیم کی ڈائریکٹر آسنتھا چارلس، صوبے ہرات میں بے گھر لوگوں کے لئے ایک ہیلتھ کلینک چلاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں،" آج میرا دل بیٹھ گیا یہ دیکھ کر کہ اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے لوگ اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔"
چارلس نے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کی حامل کمیونیٹیز افغانستان کے لوگوں کے لئے وہ فنڈز مہیا کریں جن کی اشد ضرورت ہے۔
مہینوں سے افغانستان کی حالت نہیں بدلی
اگست کے بعد سے مہینوں گزرتے رہے ہیں، اب سال ختم ہو رہا ہے مگر افغانستان کی صورتِ حال طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد سے بہتر نہیں ہوئی ہے۔ لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اب لاکھوں ایسے ہیں جن کے بارے میں عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ انہیں اس موسمِ سرما میں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔
ادارے نے مزید کہا ہے کہ افغانستان کے تمام 34 صوبوں میں انسانی ہمدردی کی امداد کی اشد ضرورت ہے اور خوراک کی کمی سے بحران کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔
ادارے کے مطابق دو کروڑ 30 لاکھ افغان شہریوں کو امدادی خوراک کی ضرورت ہے اور اس سے پہلے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو یہ خطرہ درپیش نہیں ہوا۔ ان میں 30 لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جنہیں خوراک کی اشد ضرورت ہے، ورنہ غذائیت کی کمی سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
[اس خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]