پارسی برادری کے بزرگ افراد، ’پاکستان وائلڈ لائف‘ کے عہدیداروں اور مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق، گزشتہ چند سالوں سے مُردارخور پرندوں کی نسل معدوم ہونے لگی ہے، جس کے باعث مُردوں کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے
کراچی —
مُردارخور پرندوں میں تیزی سے کمی کے باعث، پارسی برادری کو اپنے مُردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں۔
تقریباً دو کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں اس برادری کے مُردوں کو ٹھکانے لگانے کا صرف ایک ہی مقام ہے اور یہاں بھی مطلوبہ تعداد میں پرندے موجود نہیں۔
پارسی جس مقام پر اپنے مُردوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں اسے ’مقام سکوت‘ یا انگریزی میں ’ٹاور آف سائلنس‘ کہا جاتا ہے۔ ’وی او اے‘ کے نمائندے کو تمام تر دستیاب معلومات کے مطابق، کراچی میں صرف ایک ہی ’مقام سکوت‘ ہے، جو محمود آباد کے علاقے میں واقع ہے۔
آخری رسومات کا حیرت انگیز طریقہ
کراچی کے پوش علاقے میں واقع ایک بڑے اور مشہور اسکول کی انتظامیہ میں شامل ایک پارسی خاتون اور ان کے شوہر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر رازدارانہ انداز میں بتایا کہ وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ کسی نہ کسی حوالے سے محمود آباد کے ’ٹاور آف سائلنس‘ جاتی رہتی ہیں۔
اُن کے بقول، ’پارسی مذہب میں مردوں کو تابوت میں رکھ کر ایک کھلے ہوئے ’ٹاور‘ یا کنویں یا اس مقصد کے لئے کھودے گئے گڑھے میں رکھا دیا جاتا ہے، تاکہ یہ مردار خور پرندوں کی خوراک بن سکیں۔ مردے کے چہرے اور جسم پر سورج کی روشنی پڑتی رہے، اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
محمود آباد کے ایک رہائشی، اعجاز مسیح کے مطابق، ان کا گھر ’مقام سکوت‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اوقات میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ علاقے میں اڑنے والے مخصوص پرندوں مثلاً گدھوں، چیلوں اور کووٴں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی کوئی مردہ یہاں لایا جاتا ہے تو علاقے میں کئی دن تک بہت زیادہ بدبو محسوس ہوتی ہے، جیسے مردے کو ٹھکانے نہ لگایا گیا ہو۔
پارسی برادری کے بزرگ افراد، پاکستان وائلڈ لائف کے عہدیداروں اور مختلف تحقیقی رپورٹوں کے مطابق، گزشتہ چند سالوں میں مردارخور پرندوں کی نسل معدوم ہونے لگی ہے، جس کے باعث، مردوں کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
پارسی برادری کی روز بہ روز کم ہوتی آبادی
کراچی میں پارسی برادری کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ گو کہ دنیا بھر کی طر ح پاکستان میں بھی پارسی افراد کی تعداد نہایت کم ہے، لیکن یہ برادری صدیوں سے کراچی میں آباد ہے۔
شہر کے متعدد تعلیمی ادارے، اسپتال اور ہوٹل آج بھی انہی کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ لیکن، چونکہ اس مذہب کو دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اختیار نہیں کیا جاسکتا اور صرف پیدائشی یا نسلی لوگ ہی پارسی ہو سکتے ہیں، لہذا ان کی تعداد دنیا بھر میں کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
غیر ممالک کو ہجرت
پاکستان میں سالوں سے دیگر اقلیتوں کی طر ح پارسی برادری کو بھی ’تنہائی پسندی‘ کا سامنا ہے۔ اس لئے بھی، یہاں کے قدیم پارسی باشندے امریکہ، کینیڈا اور یورپ منتقل ہو رہے ہیں۔1998ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار میں کراچی میں اُن کی آبادی چند ہزار تھی جو مسلسل گھٹتے گھٹتے سینکڑوں تک آ پہنچی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پارسی بھارت اور وہاں بھی خاص کر ممبئی میں مقیم ہیں۔ بھارت کے بعد افغانستان، ایران اور پاکستان کا نمبر آتا ہے۔
برادری کو صرف پاکستان یا کراچی میں ہی آخری رسومات سے متعلق مشکلات کا سامنا نہیں اور نہی یہ مشکل کو ئی نئی ہے۔ بلکہ، دنیا بھر میں یہی صورتحال ہے۔ بالخصوص، ممبئی کے پارسی باشندوں کا ایک بڑا حلقہ رسومات کی ادائیگی کے متبادل طریقوں پر کئی عشروں سے سر جوڑ کر بیٹھا ہے۔ لیکن، مشکل ہے تو وہ کسی ایک طریقے پر اتفاق کرنا ہے۔
ہندو برادری کے زیر اثر نئے خیالات کے حامل افراد اس طریقے کو ’وحشت ناک‘ تصور کرتے ہوئے مردوں کو نذر آتش کرنے کے حق میں ہیں، تو کچھ مردوں کو زمین میں دفن کرنے کے حق میں ہیں۔
تقریباً دو کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں اس برادری کے مُردوں کو ٹھکانے لگانے کا صرف ایک ہی مقام ہے اور یہاں بھی مطلوبہ تعداد میں پرندے موجود نہیں۔
پارسی جس مقام پر اپنے مُردوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں اسے ’مقام سکوت‘ یا انگریزی میں ’ٹاور آف سائلنس‘ کہا جاتا ہے۔ ’وی او اے‘ کے نمائندے کو تمام تر دستیاب معلومات کے مطابق، کراچی میں صرف ایک ہی ’مقام سکوت‘ ہے، جو محمود آباد کے علاقے میں واقع ہے۔
آخری رسومات کا حیرت انگیز طریقہ
کراچی کے پوش علاقے میں واقع ایک بڑے اور مشہور اسکول کی انتظامیہ میں شامل ایک پارسی خاتون اور ان کے شوہر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر رازدارانہ انداز میں بتایا کہ وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ کسی نہ کسی حوالے سے محمود آباد کے ’ٹاور آف سائلنس‘ جاتی رہتی ہیں۔
اُن کے بقول، ’پارسی مذہب میں مردوں کو تابوت میں رکھ کر ایک کھلے ہوئے ’ٹاور‘ یا کنویں یا اس مقصد کے لئے کھودے گئے گڑھے میں رکھا دیا جاتا ہے، تاکہ یہ مردار خور پرندوں کی خوراک بن سکیں۔ مردے کے چہرے اور جسم پر سورج کی روشنی پڑتی رہے، اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
محمود آباد کے ایک رہائشی، اعجاز مسیح کے مطابق، ان کا گھر ’مقام سکوت‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اوقات میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ علاقے میں اڑنے والے مخصوص پرندوں مثلاً گدھوں، چیلوں اور کووٴں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی کوئی مردہ یہاں لایا جاتا ہے تو علاقے میں کئی دن تک بہت زیادہ بدبو محسوس ہوتی ہے، جیسے مردے کو ٹھکانے نہ لگایا گیا ہو۔
پارسی برادری کے بزرگ افراد، پاکستان وائلڈ لائف کے عہدیداروں اور مختلف تحقیقی رپورٹوں کے مطابق، گزشتہ چند سالوں میں مردارخور پرندوں کی نسل معدوم ہونے لگی ہے، جس کے باعث، مردوں کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
پارسی برادری کی روز بہ روز کم ہوتی آبادی
کراچی میں پارسی برادری کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ گو کہ دنیا بھر کی طر ح پاکستان میں بھی پارسی افراد کی تعداد نہایت کم ہے، لیکن یہ برادری صدیوں سے کراچی میں آباد ہے۔
شہر کے متعدد تعلیمی ادارے، اسپتال اور ہوٹل آج بھی انہی کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ لیکن، چونکہ اس مذہب کو دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اختیار نہیں کیا جاسکتا اور صرف پیدائشی یا نسلی لوگ ہی پارسی ہو سکتے ہیں، لہذا ان کی تعداد دنیا بھر میں کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
غیر ممالک کو ہجرت
پاکستان میں سالوں سے دیگر اقلیتوں کی طر ح پارسی برادری کو بھی ’تنہائی پسندی‘ کا سامنا ہے۔ اس لئے بھی، یہاں کے قدیم پارسی باشندے امریکہ، کینیڈا اور یورپ منتقل ہو رہے ہیں۔1998ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار میں کراچی میں اُن کی آبادی چند ہزار تھی جو مسلسل گھٹتے گھٹتے سینکڑوں تک آ پہنچی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پارسی بھارت اور وہاں بھی خاص کر ممبئی میں مقیم ہیں۔ بھارت کے بعد افغانستان، ایران اور پاکستان کا نمبر آتا ہے۔
برادری کو صرف پاکستان یا کراچی میں ہی آخری رسومات سے متعلق مشکلات کا سامنا نہیں اور نہی یہ مشکل کو ئی نئی ہے۔ بلکہ، دنیا بھر میں یہی صورتحال ہے۔ بالخصوص، ممبئی کے پارسی باشندوں کا ایک بڑا حلقہ رسومات کی ادائیگی کے متبادل طریقوں پر کئی عشروں سے سر جوڑ کر بیٹھا ہے۔ لیکن، مشکل ہے تو وہ کسی ایک طریقے پر اتفاق کرنا ہے۔
ہندو برادری کے زیر اثر نئے خیالات کے حامل افراد اس طریقے کو ’وحشت ناک‘ تصور کرتے ہوئے مردوں کو نذر آتش کرنے کے حق میں ہیں، تو کچھ مردوں کو زمین میں دفن کرنے کے حق میں ہیں۔