انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ، میجر جنرل احمد شجاع پاشا کےدورہٴ امریکہ پر تبادلہٴ خیال کرتے ہوئے، سابق سکریٹری جنرل برائےامورِ خارجہ، اکرم ذکی نے کہا ہے کہ دو مئی کے آپریشن کے بعد امریکہ پاکستان کے مابین سامنے آنے والی کشیدگی کو کم کرنے اور اعتماد کی فضا کو بحال کرنے کی ایک کوشش کا معاملہ زیرِ غور ہو۔
پاک امریکہ تعلقات کے موضوع پر بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘سے بات چیت میں اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ دونوںٕ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں۔ اُن کے الفاظ میں،’ ہم نے اب یہ جنگ بند تو نہیں کر دینی۔ برعکس اِس کے، ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ تعاون کے سلسلے میں کیا ارادے ہیں۔ اگر کوئی بد اعتمادی ہے تو دونوں کےمفاد میں ہے کہ اُسے دور کیا جائے‘۔
’لمس یونیورسٹی‘ میں سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ دو مئی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعطل کی فضا ہے، جسے نئے سرے سے بحال کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
پروفیسررئیس کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ طرفین باہمی تعاون کی صورتِ حال کو بہتر کرنا چاہیں گے، اورپاکستان کے بارے میں جو شکوک و شبہات ہیں اُن کو دور کیا جائے، اور ہر طریقے سے امریکہ کی قیادت کو یہ بات پہنچائی جائے کہ ایبٹ آباد کے واقعے کے بعد اِس بات کی ضرورت ہے کہ حکومتِ پاکستان اور خصوصاً فوج محسوس کرتی ہے کہ تعاون کے بارے میں جو بھی سمجھوتا ہو وہ بالکل بلیک اینڈ وائیٹ میں ہونا چاہیئے، تاکہ، کوئی شک و شبہ نہ رہے۔
اِس کے ساتھ ہی پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا جو بنیادی بات واشنگٹن کے سامنے رکھیں گے وہ پاکستانی عوام اور فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ پر قائم رہنے کا عزم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جنرل پاشا اِس بات کا اعادہ کریں گے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پُر عزم ہے اور القاعدہ اور طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ ’کم از کم جو بنیادی مفادات ہیں، پاکستان اُن پر کسی صورت سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
حال ہی میں امریکہ نے پاکستانی فوج کو دی جانے والی امداد کو عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا ، جِس پر پاکستانی فوج نے گذشتہ روز کور کمانڈرز کے اجلاس میں اِس عزم کا اظہار کیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ قومی وسائل سے لڑی جاتی رہے گی۔
اِس نکتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے، اکرم ذکی نے کہا کہ ’پبلک پوسچر ‘ اِس طرح کے ہوتے ہیں کہ فرق نہیں پڑتا، وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم امداد بند کر رہے ہیں، وغیرہ۔ ’دراصل، بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی سوچ میں کچھ اختلاف نظر آرہا ہے۔ یہ نہ تو امریکہ کے مفاد میں ہے کہ اُن کے آپس کےتعلقات بالکل منقطع ہوجائیں، نہ ہی پاکستان کے۔ وہ (جنرل پاشا) اِس مقصد سے جارہے ہوں گے کہ دیکھیں تعاون کیسے چلتا رہے گا۔‘
پروفیسر رئیس کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ امداد کے بارے میں شاید کوئی بات نہ کریں، کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اُن کے بقول، جہاں تک فوج کا تعلق ہے، اُنھوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ جو امریکہ کی فوجی امداد ہے پاکستان کے لیے اگر ترقی کے لیے ضرورت ہے تو اُس کا رُخ اُس طرف موڑ دیا جائے، تو یہ بہتر ہوگا کہ ایک طرف ناراضگی کا بھی اظہار ہے۔ اُس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر ہمیشہ سے ایک بڑا گہرا جذبہ رہا ہے کہ کسی طریقے سے ہم اپنی خودمختاری اور اپنے فیصلے خود کرنے کا جو اختیار ہے اُس کو ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں (پاکستان) فوج کا مؤقف اب یہ ہے کہ اگر امریکہ کی امداد نہیں بھی ملتی تو بھی ہم اپنے وسائل سے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے رہیں گے۔