پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا ہے کہ وہ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کے لیے بھارت گئے تھے لیکن دوسری جانب سے صرف مذاکرات میں تما م وقت دہشت گردی کے ہی موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جمعہ کے روز واہگہ بارڈ کے راستے وطن واپسی پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ جامع امن مذاکرات کودہشت گردی کے مسئلے سے نتھی کرنا غیر منصفانہ عمل ہو گااور اس ایک مسئلے کی وجہ سے امن کے پورے عمل کو یرغمال نہیں بننا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت یہ بدگمانی غالب ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی تما م تر ذمہ داری پاکستان پر ہے جو کہ ایک بے بنیاد تاثر ہے جسے دورکرنے کے لیے بھارتی سیاست دانوں اور میڈیا کو کردار ادا کرنا کی ضرورت ہے تاکہ دوطرفہ مذاکرات کو بحال کرنے میں مدد ملے۔
سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہونے والے ان مذاکرات کو کامیابی یا ناکامی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیئے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ملاقاتیں جن کا ایجنڈا طے نہیں ہوتا زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتیں۔
جامع امن مذاکرات کی بحالی کے بارے میں بھارت کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے سلمان بشیر نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات ہی عدم اعتماد کو کم کرنے اور آگے بڑھنے کا راستہ ہے اوربھارت کو اسے سمجھنا چاہیئے۔ اُن کا کہنا تھاکہ پاکستان برابری اور عزت کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے اور اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔
پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ نے یہ بھی بتایا کہ اُنھوں نے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطو ں کی تجویز سمیت باہمی تعلقات میں بہتر ی کے لیے کئی تجاویز پیش کیں ۔
نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان نئی دہلی میں جمعرات کو ہونے والا یہ پہلا باضابطہ رابطہ تھاجس کی دعوت بھارت نے دی تھی ۔ مذاکرات کے بعدکسی مشترکہ اعلامیے کے بجائے دونوں ممالک کے سفارتی وفود کے سربراہوں نے الگ الگ پریس کانفرنسوں میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اس عمل کو بے نتیجہ تو قرار نہیں دیا البتہ اُنھوں نے اپنے ممالک کے وضع کردہ موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا۔