امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ ان کا ایشیا کے ممالک کے دورے کا مقصد امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ فوجی تعاون کو آگے بڑھانا اور چین کے مقابل قابل اعتماد طریقہ کار اپنانا ہے۔
وزیرِ دفاع کی حیثیت سے لائیڈ آسٹن نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز ہوائی سے کیا جو کہ انڈو پیسیفک خطے میں امریکی ملٹری کمانڈ کا مرکز ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق لائیڈ آسٹن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندؤں سے گفتگو میں کہا کہ ان کے دورے کا مقصد اتحاد اور شراکت داری کو مضبوط کرنا ہے۔ وہ اس دورے میں جاپان، بھارت اور جنوبی کوریا جائیں گے۔
وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ہے کیوں کہ جب امریکہ مشرق وسطیٰ میں جہادیوں کے خلاف توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا چین نے تیزی سے اپنی فوج کو جدید بنانا شروع کر دیا تھا۔
اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لائیڈ آسٹن نے کہا کہ یوں امریکہ کو چین کے مقابل جو مسابقتی برتری حاصل تھی وہ کم ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو آج بھی مسابقتی برتری حاصل ہے جسے آنے والے دنوں میں مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقصد یہ ہو گا کہ ایسی صلاحیتیں اور منصوبے موجود ہوں جو چین یا کسی بھی ایسے ملک، جو امریکہ پر سبقت لے جانا چاہے، کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے ایک قابلِ اعتبار روک تھام کا لاحہ عمل ہوں۔
اس دورے کے دوران وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن جاپان اور جنوبی کوریا میں وزیرِ دفاع کے ہمراہ ہوں گے۔
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ وہ اور وزیر خارجہ بلنکن ایشیا میں اپنے اتحاد مضبوط کرنے کے کام کا آغاز کریں گے اور اتحادیوں کی بات سنیں گے تاکہ ان کے نقطۂ نظر جان سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کا یہ دورہ چار ممالک امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے 'کواڈ اجلاس' کے بعد ہو رہا ہے۔
اس صدی کے پہلے عشرے میں قائم ہونے والے 'کواڈ گروپ' کی بنیاد ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے چین کے مقابلے میں توازن بنانے پر رکھی گئی ہے۔
وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن 18 مارچ کو قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کے ہمراہ ریاست الاسکا میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی اور یانک جیچی سے ملاقات کریں گے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے ساتھ تعلقات میں ایک سخت نقطہ نظر برقرار رکھنے کی پالیسی کو جاری رکھا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انتظامیہ زور دے رہی ہے کہ ایسی پالیسی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مؤثر بنانے اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے مسائل پر تعاون سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔