امریکہ نے افغانستان کی صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت افغان فورسز کے آگے بڑھ کر اپنے ملک کا دفاع کرنے کا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اتوار کو 'فاکس نیوز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان کی صورتِ حال کو گہری تشویش کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یہ وقت افغان فورسز کی ذمہ داری لینے کا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب طالبان افغانستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب امریکی افواج صدر جو بائیڈن کی انخلا کی پالیسی کے تحت تیزی سے وطن واپس لوٹ رہی ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے 31 اگست تک انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کی صورتِ حال تیزی سے غیر یقینی کا شکار ہو رہی ہے۔
طالبان حملہ آوروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کا تقریباً 85 فی صد علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ اس دعوے میں مبالغہ آرائی کا امکان ہو سکتا ہے تاہم پینٹاگون کے ترجمان نے اس بات کو مسترد نہیں کیا کہ ایک کروڑ 30 لاکھ افغان شہری طالبان کے کنٹرول میں رہ رہے ہیں۔ ایک کروڑ افغان شہری حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں آباد ہیں جب کہ 90 لاکھ ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جن کے کنٹرول کے لیے کشمکش جاری ہے۔
جان کربی نے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے باوجود امریکی کمانڈرز اس قابل ہوں گے کہ وہ دیگر ممالک میں موجود اپنے اڈوں پر رہتے ہوئے افغان فورسز کو مشاورت فراہم کر سکیں۔ تاہم امریکہ اور نیٹو افواج کا زیادہ تر حصہ پہلے ہی افغانستان سے انخلا مکمل کر چکا ہے اور انخلا کا یہ عمل اگست کے آخر میں مکمل ہو گا۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے افغانستان سے انخلا کے اپنے فیصلے کا ایسے میں دفاع کیا تھا جب طالبان وہاں پیش قدمی کر رہے ہیں۔
بائیڈں کا کہنا تھا "ہم افغانستان اس لیے نہیں گئے تھے کہ وہاں قوم کی تعمیر کر سکیں۔ یہ افغانستان کے لوگوں کا حق اور فرض ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں کہ وہ اپنا ملک کس طرح چلانا چاہتے ہیں۔"
القاعدہ اور داعش خراساں جیسے گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے کا خدشہ
وائس آف امریکہ کے سینئر نمائندے جیف سیلڈن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے انخلا مکمل کر رہی ہیں جب کہ مغربی عہدیدار دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ خطرات اس امکان کے پیشِ نظر ہیں کہ القاعدہ اور داعش جیسی عسکریت پسند تنظیمیں افغانستان میں دوبارہ منظم ہو سکتی ہیں۔
امریکہ کے عہدیدار کھلے عام اور پس پردہ رہتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ مذکورہ دونوں دہشت گرد گروپ اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ ان کے بقول القاعدہ کے اب بھی سیکڑوں جنگجو افغانستان بھر میں موجود ہیں جب کہ داعش کے افغانستان کے اندر اتحادی گروپ اسلامک اسٹیٹ خراساں کی عددی قوت اس سے تھوڑی زیادہ ہے۔
داعش۔خراساں نے متعدد بڑے حملوں، بالخصوص شہری علاقوں میں بڑی کارروائیوں کی ذمہ داریوں کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن انٹیلی جنس اور انسانی امداد کے اداروں سے وابستہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس کے کم امکانات ہیں کہ دونوں گروپ کوئی کارروائی کریں اور اپنے آپ کو افغانستان سے باہر سے اڑان بھرنے والے امریکی بمبار طیاروں یا ڈرون حملوں کا آسان ہدف بنوائیں۔
انسداد دہشت گردی کے ایک مغربی عہدیدار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ غالباً مستقبل میں اپنی قسمت طالبان کے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔
SEE ALSO: غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں: افغان صدرعہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر مزید بتایا کہ القاعدہ طالبان کو دوبارہ یقین دہانی کرانا چاہتی ہے وہ انہیں شرمسار نہیں کرے گی۔ ان کے بقول القاعدہ کے کمانڈرز افغانستان کو ایک ایسی جگہ کے طور پر پاس رکھنا چاہتے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ نئے لوگوں کو اپنے گروپ میں بھرتی کر سکیں اور ان کی تربیت کر سکیں۔
اسلامک اسٹیٹ خراساں، جس کے پاس اس وقت افغانستان کے اندر کوئی علاقہ موجود نہیں، جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے اندر اپنی بحالی کے لیے بنیادیں رکھ رہی ہے۔
انسداد دہشت گردی کے عہدیدار نے کہا کہ "داعش خراساں ختم نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو حالیہ مشکلات کے باوجود دوبارہ طاقت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ آپ کچھ خاص حالات دیکھ رہے ہیں جن میں داعش خراساں زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے، مزید جنگجوؤں کو اپنی جانب راغب کر سکتی ہے اور اپنی کارروائیوں کے لیے زیادہ آزادی حاصل کر سکتی ہے۔"
خطے کے حالات پر نظر رکھنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ داعش خراساں نے افغانستان سے باہر بھی دیکھنا شروع کر دیا ہے اور وہ قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے کچھ حصوں میں پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وسط ایشیا میں ایک عہدیدار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش خراساں کی توجہ زیادہ خوبیوں کے حامل ارکان کی تعداد پر ہے۔ وہ بھرتیوں، لاجسٹکس، معاشی مدد، معاشی ڈھانچے کے لیے مقامی سطح پر نظام قائم کر رہی ہے۔
امریکہ اور وسط ایشیائی ممالک کے عہدیدار بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پینٹاگون نے رواں برس اپریل میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں داعش خراساں میں توسیع کو اپنی سب سے بڑی تشویش بتایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس بھی اس چیز کو دیکھتے ہوئے تشویش ظاہر کرتی ہے کہ داعش خراساں نے تاریخی طور پر وسط ایشیائی ممالک میں بھرتی ہونے والوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔
ازبکستان کے امریکہ کے لیے سفیر جاولان واخابوف نے ازبک سروس کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک بارڈر سیکیورٹی پر امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے اور اس کی نظر داعش خراساں کے پھیلاؤ پر ہے۔
دوسری جانب روس جیسے ملک خبردار کر رہے ہیں کہ افغانستان کے اندر داعش کے اراکین اپنی فورسز پر توجہ دے رہے ہیں۔
روس کے وزیرخارجہ سر گئی لاروف نے گزشتہ ہفتے 'طاس' نامی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا داعش زیادہ تر شمالی افغانستان میں متحرک انداز میں علاقے حاصل کر رہی ہے۔
متعدد ایجنسیز اور تنظیموں کے عہدیدار وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں اس طرح کے دعووں سے قائل نظر نہیں آتے۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ 'بلف' یعنی دھوکہ دہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کے اندر دہشت گرد گروہوں القاعدہ اور داعش خراساں کا انحصار طالبان پر ہو گا جن کے کنٹرول والے اضلاع میں اضافہ ہو رہا ہے۔