جیسا کہ دنیا آج زیادہ مربوط ہوگئی ہے اورانسانی ثقافتیں ایک دوسرےمیں ضم نظر آتی ہیں سائنس دانوں نے یہ دیکھنا شروع کیا ہے کہ الگ الگ نسلوں کے امتزاج سے جنم لینے والے نئے معاشرے کا انسان اپنے آباو اجداد سے کتنا مختلف ہے،خاص طور پر مخلوط نسلوں کی شادیاں انسانی ارتقاء میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔
انسانی جینیاتی تنوع کی سب سے بڑی تحقیق کے مطابق ابتدائی دور اور جدید دور کے انسان کےخدوخال میں تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ آج کا انسان اپنے آباو اجداد کے مقابلےمیں قد میں اونچا اور ذہین ہے اور اس کی وجوہات کو سائنس دانوں نے جینیاتی طور پر متنوع آبادی کے اضافے کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
نتائج سے محققین نے اخذ کیا کہ ایک ہی طرح کا ڈی این اے رکھنے والے والدین کے مقابلے میں جینیاتی طور پرغیر متعلقہ والدین کے بچے زیادہ بلند قامت اور ذہین تھے۔
سائنسی جریدہ 'جرنل نیچرل' میں شائع ہونے والے مطالعے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مخلتف نسلوں سے تعلق رکھنے والے والدین کے گھر پیدا ہونے والے بچوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے امکانات روشن تھے ۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے دنیا بھر میں کئے گئے 100 سے زائد مطالعوں سے صحت اور جینیاتی معلومات کا تجزیہ کیا، جس میں شہری اور دیہی آبادیوں سے 350,000 افراد کے بارے میں معلومات شامل تھی ۔
سائنس دانوں نے انسانی جینیوم کے جینیاتی اختلافات کا مقابلہ 16 بائیو میڈیکل خصلتوں کے ساتھ کیا جس میں قد، کولیسٹرول کی سطح ،علمی صلاحیت، تعلیمی کامیابیاں وغیرہ شامل تھیں۔
ماہرین حیاتیات نے ایسے واقعات کی نشاندہی کی جس میں لوگوں کو موروثی طور پر ماں اور باپ دونوں کی طرف سے جین کی ایک جیسی نقل ملی تھی یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ان کے باپ دادا ایک دوسرے سے متعلق تھے ۔
مطالعے میں کچھ واقعات میں کسی شخص میں زیادہ جینیاتی تنوع دکھائی دیا جس سے یہ امکان ظاہر ہوا کہ دونوں خاندان ایک دوسرے سےمتعلقہ نہیں تھے ۔
سائنس دانوں کو پتا چلاکہ اونچائی اور ذہانت دو ایسی خصلتیں تھیں جن میں والدین کے درمیان ڈی این اے کے اختلاط کے نتیجے میں اضافہ ظاہر ہوا ۔
تاہم محققین کو یہ بھی پتا چلا کہ جینیاتی تفریق کا طبی علامات مثلا ذیا بیطس، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول کی سطح پر کوئی اثر نہیں تھا۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ دنیا کے دوردراز حصوں مثلا فن لینڈ اور ایشیا میں رہنے والے لوگوں کے ڈی این اے میں جتنے زیادہ اختلافات تھے ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں چار انسانی خصلتوں قد، پھپھٹروں کی صلاحیت، علمی صلاحیت اور تعلیمی کامیابیوں کے اتنے ہی زیادہ امکانات تھے۔
تحقیق کے مصنف پیٹر جوشی نے کہا کہ ماحولیاتی عوامل کے اثرات کو شامل کرنے کے بعد بھی نتائج پر جینیاتی اثرات حقیقی تھے۔
انھوں نے کہا کہ نظریہ ارتقاء پیش کرنے والے سائنس دان چارلس ڈارون نے قریبی خاندانوں یعنی فرسٹ کزن میں شادیوں کی وجہ سے داخلی تولید کے اثرات پر بحث کی ہے لیکن نئی تحقیق میں الگ الگ خاندانوں میں شادیوں سے افزائش نسل پر پڑنے والے مثبت فوائد کو دیکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر پیٹر جوشی نے کہا کہ ہماری تحقیق نے چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا جواب پیش کردیا ہے کہ جینیاتی تنوع ارتقائی فٹنس کے لحاظ سے فائدہ مند ہو سکتی ہے جبکہ ایک اندازا یہ بھی ہے کہ الگ الگ نسلوں سے تعلق رکھنے والے والدین کی طرف سے بچوں کو وراثت میں نقص والی جین منتقل ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں نے تجویز کیا کہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ارتقائی عمل قد میں اضافے اور تیز سوچ کی مہارت کے ساتھ انسانوں کی حمایت کر رہا ہے۔
سائنس دان چارلس ڈارون 1859میں پہلی بار جانداروں کے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا تھا، اس کے متنازع نظریہ کو ہم ایک جملے میں ماحول کے مطابق جانداروں میں اپنی بقا کے لیے مسلسل جینیاتی تبدیلی کانام دے سکتے ہیں۔
انسانی ارتقاء کے حوالے سے جدیدسائنس دانوں کی رائے یہ بھی ہے کہ لوگوں کے درمیان فرق ماحولیاتی اثرات کے باعث آرہا ہے مثلا خارجی عوامل، انفیکشن کے اثرات، ماحولیات اور خوارک نئی نسل کے جینیاتی کوڈ پراثر انداز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انسان اب بھی بہت زیادہ ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔