طلبہ یونینز پر پابندی سے معاشرے میں غیر جمہوری سوچ کو فروغ ملا، پرویز رشید

  • مبشر علی زیدی

Pervaiz Rasheed Federal Information Minister

پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طالب علم رہنما رہ چکے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاست کی اس نرسری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔

اس سلسلے میں این ایس ایف کے سابق رہنما پرویز رشید سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

آج کے طلبہ سیاسی تاریخ اور جمہوری جدوجہد سے بے خبر ہیں


سوال: جس زمانے آپ کے کالج میں پڑھتے تھے، تب کون سی طلبہ تنظیمیں فعال تھیں اور آپ نے کس تنظیم کا انتخاب کیا؟

پرویز رشید: یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ اس وقت پاکستان میں نظریاتی تقسیم بھی موجود تھی اور نظریاتی بحث بھی۔ ایک طرف ترقی پسند اور دوسری طرف پرانا مکتبہ فکر یا عقیدہ پرست۔ ادھر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ادھر اسلامی جمعیت طلبہ۔ یہ تقسیم طلبہ میں بھی تھی اور اساتذہ میں بھی۔ مذہبی ذہن والے استاد بھی تھے اور ترقی پسند سوچ والے بھی۔ سب کی اپنی اپنی صلاحیتیں، صوابدید، شعور کی سطح، علم اور پس منظر تھا۔ وہ طے کردیتا تھا کہ کون جمعیت کی جھولی میں جاگرے گا اور کون ترقی پسندوں کا ساتھی بن جائے گا۔

میرا انتخاب ترقی پسندوں کی طالب علم تنظیم این ایس ایف تھی۔ پہلے وہ صرف کراچی تک محدود تھی۔ میں راولپنڈی کے گورڈن کالج میں پڑھتا تھا۔ کراچی کے بعد اس کی پہلی تنظیم راولپنڈی میں قائم کی گئی اور میں اس کا پہلا منتخب صدر تھا۔

سوال: میں نے آپ سے بیس سال بعد کالج میں داخلہ لیا تو بہت کشیدگی کا ماحول تھا۔ آپ کے دور میں کیا صورتحال تھی؟ کیا مخالف تنظیم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوجاتی تھیں؟

پرویز رشید: ان دنوں ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ برداشت تھی۔ پنجاب میں ویسے بھی ہمیشہ سے اچھا ماحول رہا ہے۔ پنجاب میں مذہبی تنظیموں کو کبھی خاص پذیرائی نہیں ملی تھی۔ اس زمانے تک پنجاب صوفیائے کرام کے زیادہ اثر میں رہا۔ صوفیا کی تمام تعلیم امن، محبت، بھائی چارے اور دوستی کی رہی ہے۔ اس لیے پنجاب میں ترقی پسند طلبہ کی نمایاں اکثریت تھی۔ جمعیت یونیورسٹی اور کالج میں موجود تھی، اس کی تنظیم بہت اچھی تھی، مالی معاونت بھی زیادہ تھی کیونکہ جماعت اسلامی سرپرستی کرتی تھی۔ جماعت اسلامی خود منظم سیاسی جماعت تھی جس کے ذرائع اور وسائل اچھے تھے۔ لیکن چونکہ اس وقت عوامی لہر ترقی پسندوں کے ساتھ تھی، اس لیے ترقی پسند طلبہ تنظیموں کو بھی وسائل مل جاتے تھے۔ لوگ مدد کردیتے تھے۔

سوال: ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تو تمام ترقی پسند نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں گے؟

پرویز رشید: بھٹو صاحب اپنی پارٹی بنانے سے پہلے طلبہ میں مقبولیت قائم کرچکے تھے۔ اس کی وجہ ان کا نیشنلسٹ کردار تھا۔ پنجاب میں کشمیر کی آزادی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنی سیاست میں کشمیرکی آزادی اور ہندوستان کا مقابلہ کرنے کی باتوں کو محور بنا رکھا تھا۔ پنجاب سمجھتا تھا کہ تاشقند میں ایوب خاں نے جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی۔ بھٹو صاحب نے ان جذبات کی ترجمانی کی جس کی وجہ سے نوجوانوں میں مقبول ہوگئے۔ پھر انھوں نے روٹی کپڑا مکان، سوشلزم اور جمہوریت کا تڑکا بھی اپنی سیاست میں لگایا۔ اس کی وجہ سے وہ نئی نسل کے پسندیدہ رہنما بن گئے۔

سوال: آپ چاروں ڈکٹیٹرز کے دور میں جیل میں ڈالے گئے۔ پہلی بار کب گرفتار کیے گئے؟

پرویز رشید: اس عہد میں بہت سے نوجوان ایوب خان کی آمریت کے خلاف لڑتے ہوئے جیل گئے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ پھر یحیٰ خان صاحب آگئے۔ تب جو نوجوان سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے، اس میں جو دوسروں کے ساتھ ہوا، وہ مجھ پر بھی گزر گئی ہوگی۔

سوال: طلبہ تنظیموں کو وقت دینے والے نوجوان پڑھائی میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہوں گے؟

پرویز رشید: اس کے برعکس میرا یہ خیال ہے کہ جو لوگ طالب علم تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے، ان میں تعلیم میں دلچسپی زیادہ تھی۔ ان کا اپنے اساتذہ کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوجاتا تھا۔ وہ پروفیسر صاحبان جہاں ان کی نظریاتی تربیت کرتے تھے، وہاں ان کی علمی قابلیت بڑھانے میں بھی کردار ادا کرتے تھے۔ وہ طالب علم جنھیں اساتذہ کی صحبت نصیب ہوجاتی ہے، انھیں دوسرے طلبہ کے مقابلے میں علم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع میسر آجاتے ہیں۔ پڑھنے کی عادت بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

سوال: ہمارے دور میں آئے دن جھگڑے ہوتے تھے اور گولیاں چلتی تھیں۔ آپ کے زمانے میں مخالفین پر تشدد کیا جاتا تھا؟

پرویز رشید: ہمارے دور میں لڑائی جھگڑا اس قدر کم تھا کہ شاید اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا تھا۔ البتہ بحث مباحثہ بہت ہوتا تھا۔ اور ایک وجہ مبشر مجھے یہ لگتی ہے کہ انگریز جو کلچر ہمیں دے کر گیا، تمام کالجوں میں ڈبیٹ کلب ہوتے تھے اور تقریری مقابلے کروائے جاتے تھے۔ یہ مقابلے تینوں زبانوں میں ہوتے تھے یعنی انگریزی، اردو اور پنجابی میں۔ پختونخوا میں پشتو زبان میں ہوتے تھے۔ اس کے زیر اثر لوگ نظریاتی مباحثے کرتے تھے، مضامین لکھتے تھے اور کلاس میں بھی بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ لیکن اسلحے کا استعمال نہیں تھا۔ یہ بدعت ضیا الحق صاحب کے زمانے میں شروع ہوئی۔ انھوں نے ریاست کی طاقت کو استعمال کیا اور یونیورسٹیوں کالجوں کو جمعیت کے حوالے کردیا تو ترقی پسند اساتذہ اور طلبہ کے لیے درس گاہوں کے دروازے بند ہوگئے۔

سوال: تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی سیاست میں کیوں آئے؟ کیا کسی نے ترغیب دی؟

پرویز رشید: جب آپ جمہوری اقدار پر یقین کرنے لگتے ہیں تو اسی طرح سوچتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت ہوتی تو اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ ہم کوئی اور شغل اختیار کرلیتے۔ لیکن چونکہ ضیا الحق صاحب کی آمریت آگئی تو ہم نے فرض کرلیا کہ اس کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ جب وہ آمریت ختم ہوئی تو اس وقت تک ہمیں سیاست کی عادت ہوچکی تھی۔

سوال: طلبہ تنظیموں سے قومی سیاست کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان تنظیموں پر پابندی اچھی ہے یا بری؟

پرویز رشید: طلبہ تنظیموں پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ طلبہ تنظیم کوئی بنانا چاہے تو آج بھی بناسکتا ہے۔ پابندی طلبہ یونینز پر لگی ہے۔ یعنی کالجوں یونیورسٹیوں میں انتخابات ہوتے تھے اور طلبہ جمہوری عمل کو سیکھتے سمجھتے تھے، اس پر پابندی لگادی گئی۔ لہذا جیسے ملک میں جمہوریت کا پودا جڑ نہیں پکڑسکا، اسی طرح کالج یونیورسٹی کے ماحول میں بھی جمہوری نشوونما نہیں ہوسکی۔

ایک مکتبہ فکر کا، ریاست کا شکستہ سا بیانیہ ہے جسے نصاب میں شامل کردیا گیا اور طلبہ کو بھی بس وہی سکھایا گیا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ نہ پاکستان کے سیاسی پس منظر سے باخبر ہیں، نہ سیاسی تاریخ سے واقف ہیں، نہ جمہوریت کے لیے اس سیاسی جدوجہد سے آگاہ ہیں جس میں سیاسی جماعتوں نے، قائدین نے، دانشوروں نے، اساتذہ نے، صحافیوں نے، عوام نے قربانیاں دی ہیں۔ اب تو سیاست کے لفظ ہی کو برا بنادیا گیا ہے۔ سیاسی عمل ہی کو برا سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے وزیراعظم کبھی چین کا ماڈل پاکستان لانے کی بات کرتے ہیں، کبھی سعودی عرب کا ماڈل اپنانے کا کہتے ہیں۔ کبھی پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی دینے کی خواہش کرتے ہیں۔ یہ سب غیر جمہوری سوچ سے پیدا ہونے والے خیالات ہیں۔ یہ غیر جمہوری رویے شاخسانہ ہیں اس عمل کا، جس کا ایک حصہ طلبہ یونین پر، اس کے انتخابات پر پابندی لگانا تھا۔