پشاور کی ایک عدالت نے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم اور پشتون تحفظ تحریک کی رہنما گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسماعیل کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی ہے۔
پشاور میں منگل کو ایڈیشنل سیشن جج جویریہ سرتاج کی عدالت میں پروفیسر اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل جاوید مہمند نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اسماعیل نے سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور ٹوئٹر پر پاکستان اور قومی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے مزید کہا کہ پروفیسر اسماعیل نے ریاستی اداروں پر بے جا الزامات لگوائے اور اداروں کے خلاف غلط معلومات پھیلائیں۔
وکلا صفائی کے پینل میں شامل فضل الٰہی ایڈووکیٹ اور شہاب ایڈووکیٹ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اسماعیل کے خلاف سائبر کرائم کے تحت مقدمہ بنتا ہی نہیں۔ اُنہیں صرف ان کی بیٹی گلالئی اسماعیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواستِ ضمانت کو خارج کر دیا ہے۔
ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر پروفیسر اسماعیل کے حق میں پیش ہونے والے وکیل فضل الٰہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ پروفیسر اسماعیل کی رہائی کے لیے اب پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
یاد رہے کہ پروفیسر اسماعیل کو 24 اکتوبر کو سیکیورٹی اہلکاروں نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ پشاور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست قبل از گرفتاری کی سماعت ملتوی ہونے کے بعد گھر جا رہے تھے۔
بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پروفیسر اسماعیل کے خلاف سائبر کرائمز کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے 25 اکتوبر کو عدالت سے جوڈیشل ریمانڈ ملنے کے بعد پشاور جیل بجھوا دیا تھا۔
خیال رہے کہ حکومت نے پشتون تحفظ تحریک کی خاتون رہنما اور پروفیسر اسماعیل کی بیٹی گلالئی اسماعیل کے خلاف مئی میں بغاوت، غداری اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔ البتہ، گلالئی اسماعیل تقریباً چار مہینوں کی روپوشی کے بعد ستمبر میں پراسرار طریقے سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
گلالئی اسماعیل اپنے والد پروفیسر اسماعیل کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دے چکی ہیں، جب کہ امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی پروفیسر اسماعیل کی گرفتاری اور گلالئی اسماعیل کے خاندان کو ہراساں کرنے کی مذمت کی ہے۔