پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں ڈاکٹروں نے اپنے ایک سینیئر ساتھی ڈاکٹر سید جمال حسین کے حالیہ قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسپتالوں میں پیر سے تین دن کی ہڑتال شروع کر دی ہے۔
ڈاکٹر جمال حسین کو تقریباً دو مہینے قبل مشتبہ طالبان شدت پسندوں نے اغواء کر کے ان کی رہائی کے بدلے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن تین روز قبل ڈاکٹر جمال کی گولیوں سے چھلنی لاش پشاور کے نزدیک جمرود کے قبائلی علاقے سے ملی۔
اس واقعہ کے خلاف احتجاجاً بڑے اسپتالوں کے علاوہ ڈاکٹروں نے تمام نجی اسپتالوں اور کلینک میں بھی ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اُن کے بقول ڈاکٹروں کے خلاف ایسے واقعات میں طالبان شدت پسند ملوث ہیں۔
’’ہمارا موقف تو بہت واضح ہے کہ یہ اغواء کاری بھی دہشت گردی کا ایک حصہ ہے اور فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب ان کے مطالبے پورے نہیں ہوتے تو اس طریقے سے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
خیبر پختون خواہ میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر نادر نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے حفاظتی اقدامات ناکافی ہیں۔
’’ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک عدالتی کمیشن اس قتل کی تحقیقات کرے، خیبر پختون خواہ کے ڈاکٹروں کو موزوں سکیورٹی فراہم کی جائے اور مقتول ڈاکٹر کے لواحقین کی مالی امداد کی جائے۔‘‘
ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مریضوں اور اُن کے اہل خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر نادر کے بقول 2010ء سے اب تک صوبے میں 13 سینیئر ڈاکٹروں کو تاوان کی غرض سے اغوا کیا جا چکا ہے اور ان میں سے دو کو قتل بھی کر دیا گیا۔