پشاور میں جن فنون کو معدوم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے ان میں مجسمہ سازی پہلے نمبر پر ہے۔ پشاور کے آخری مجسمہ ساز غلام جعفر کا کہنا ہے کہ لوگوں کی طرف سے حقیر سمجھنے کے باعث وہ اس فن کو اپنی آنے والی نسل میں منتقل نہیں کرنا چاہتے۔
ماضی میں تانبے کے ظروف پشاور کے ہر گھر میں روزمرہ کے استعمال میں ہوتے تھے۔ مگر مہنگائی کی وجہ سے اب انہیں صرف ڈیکوریشن پیس کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاحوں اور خریداروں کی کمی کے باعث اکثر دکان دار اس کاروبار کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
ایک دور میں پشاور غیر ملکی سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر دہشت گردی اور شدت پسندی کی لہر آنے کے بعد اب سیاح یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ اس سے دیگر فنون کی طرح لکڑی کے تنکوں سے روزمرہ استعمال کی اشیا اور ڈیکوریشن پیس بنانے والوں کا کاروبار بھی مشکلات سے دوچار ہے۔
السی کے پودے سے نکلنے والے پانی کو مٹی میں ملا کر گودا بنایا جاتا تھا اور پھر اسے کپڑے پر نقش و نگار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ریاض احمد پشاور میں اب اس فن سے وابستہ آخری فن کار بچے ہیں۔
غلیل کو لوگ شکار کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسے پشتون کلچر میں بھی ایک اہم مقام حاصل تھا۔ پرانے زمانے میں ہر شخص غلیل اپنے پاس بطور ہتھیار رکھتا تھا۔ مگر آج کے جدید دور میں غلیل سازی کی صنعت بھی معدوم ہو رہی ہے اور اب شہر میں غلیل بنانے والے چند ہی لوگ باقی بچے ہیں۔
رباب پشتو فنِ موسیقی کا ایک اہم جز ہے۔ لیکن دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لہر نے جہاں ساز و سنگیت کو نقصان پہنچایا، وہیں رباب سازی کی صنعت بھی اس سے نہ بچ سکی۔
پشاور کبھی اپنے فنون اور ثقافت کے باعث برِصغیر پاک و ہند اور افغانستان میں مشہور ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج اس شہر کی پہچان مختلف فنون معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔