پشاور ہائی کورٹ نے سوموار کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم مشال خان قتل کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلوں کے خلاف دائر تمام اپیلوں اور درخواستوں کی سماعت ابیٹ آباد سے پشاور منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے یہ حکم صوبائی حکومت اور مشال خان کے والد اقبال خان کی طرف سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا۔ عدالت نے اپیل کندگان کی جانب سے مجرمان کو دی گئی سزاؤں میں اضافے اور بری ہونے والوں کو سزائیں دینے کی اپیلوں کو بھی باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کر لیا ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وقار احمد خان اور سینئر وکیل بیرسٹر عامر اللہ خان جبکہ مشال خان کی جانب سے آیاز خان،فضل خان اور دیگر وکلاء پر مشتمل ایک پینل عدالت میں پیش ہوا۔
صوبائی حکو مت نے انسداد دہشتگردی ایبٹ آباد کی عدالت کے خلاف تین جبکہ مشال خان کے والد نے چھ اپیلیں دائر کر دی ہیں۔ اپیلوں میں عمر قید اور دیگر نوعیت کی سزاؤں میں اضافے جبکہ بری ہونے والوں کے خلاف ازسر نومقدمے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست گزاروں نے عدالت کو یاد دلایا کہ پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد کے بنچ نے 25 ملزمان جن کو مختلف نوعیت کی قید کی سزائیں دی گئی تھیں، اُنہیں ضمانت پر رہا کر دیا ہے ۔ یہ واقعہ مردان میں ہوا ہے جو پشاور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے ،ایبٹ آباد میں نہیں ۔ لہذا ایبٹ آباد کے بنچ کے اس فیصلے کو کالعدام قرار دیکر رہائی پانے والے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے اپیلیوں اور درخواستوں کے حق اور مخالفت میں دلائل سننے کے بعد اسے ایبٹ آباد سے پشاور منتقل کرنے کا حکم دیکر باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کر لیا۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالبعلم مشال خان کو ساتھی طلباء اور یونیورسٹی ملازمین نے توہین رسالت کا الزام لگا کر تشدد کر کے اور گولیاں مار کر 3 اپریل 2017 کو قتل کر دیا تھا۔ ایبٹ آباد کے انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 7 مارچ کو ایک ملزم کو سزائے موت،5 کو عمر قید اور25 کو مختلف نوعیت کی قید کی سزائیں سنائی تھیں جبکہ26 ملزمان کو عدم ثبوت کے بناء پر بری کر دیا گیا تھا۔ تاہم پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بنچ کے حکم پر قید کئے جانے والے25 ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
مشال خان کے مقدمہ قتل میں ملوث61 میں سے اب تک 57 ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت انسداد دہشتگردی ایبٹ آباد کی عدالت میں مکمل ہو چکی ہے جبکہ دوملزمان جو چند ہفتے قبل گرفتار ہوچکے ہیں ان کے خلاف مردان کی عدالت میں مقدمے زیرسماعت ہیں ۔ باقی دوملزمان ابھی تک روپوش ہیں۔