پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد پر اپنے عہدے کے مبینہ غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے، سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر درخواست میں سابق وزیرِ اعظم نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ نیب کے سربراہ نے یکم مئی کو ان کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری کیا۔ بعد ازاں گرفتاری کے وارنٹس کو آٹھ روز تک مخفی رکھا گیا۔
عمران خان نے درخواست میں کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے ان کے خلاف جاری القادر ٹرسٹ کی انکوائری کو تفتیش میں بدلنے کے حوالے سے بھی انہیں آگاہ نہیں کیا تھا۔ ان کا یہ عمل نیب کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم نے اپنی درخّواست میں مؤقف اختیار کیا ہےکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی 11 مئی کو اپنے احکامات میں نیب کے چیئرمین کے جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹس اور پھر رینجرز کے ہاتھوں ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
انہوں نے نیب کے سربراہ پر الزام عائد کیا کہ وہ انہیں آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق سے بھی محروم کر رہے ہیں۔
عمران خان کا درخواست میں کہنا ہے کہ نیب کے چیئرمین مبینہ غیر قانونی امور انجام دینے میں ملوث رہے جب کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا بھی غلط استعمال کیا اس لیے اب وہ اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب کو فوری طور پر ان کےمنصب سے معزول کیا جائے۔
قبل ازیں عمران خان نیب کے چیئرمین کو 15 ارب روپے کے ہتک عزت کا نوٹس بھی بھیج چکے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے (نیب) کے کہنے پر پیرا ملٹری فورس رینجرز نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ کرپشن کے الزام میں نو مئی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کےاحتجاج میں ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیاتھا۔ اس دوران فوج کے مرکز جی ایچ کیو اور لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس میں بھی تور پھوڑ کی گئی تھی۔
نیب نے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم کو زیر تفتیش 'القادر ٹرسٹ کیسُ میں گرفتار کیاگیا ہے۔
نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں کرپشن کے جرم میں حراست میں لیا گیا۔
خیال رہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں 'القادر ٹرسٹ' کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی تھی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی اہلیہ کی قریبی دوست فرح خان گوگی ہیں۔
القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیگئی تھی۔
پاکستان کو یہ رقم برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کے ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔
SEE ALSO: عمران خان کے خلاف زیرِ تفتیش 'القادر ٹرسٹ' کیس کیا ہے؟بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔
لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں رقم ادا کر رہے ہیں۔ یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔
تین دسمبر 2019 کو وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں سمری کی منظوری کے بعد حکومت نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
SEE ALSO: مائنس عمران خان کی بازگشت؛ 'لڑائی منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے'نیب نے القادر ٹرسٹ کی تحقیقات کے لیے عمران خان اور اس وقت کے وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت متعدد افراد کو نوٹس جاری کیے تھے اور اس کی چھان بین کو تفتیش میں تبدیل کیا تھا۔
نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ یکم مئی کو جاری کیے گئے تھے لیکن انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے نو مئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ کیس اب بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے جب کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ ضمانت پر رہا ہیں۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے رہنما پریس کانفرنسوں میں پارٹی اور سیاست چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے سبب پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔