پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے ”اوگرا“ کی جانب سے پیٹرول سمیت تیل کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں چھ فیصد تک اضافے پر صارفین اور بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں روز بروز اضافے سے پہلے ہی عام آدمی مشکلات کا شکار ہے اور ایندھن کی قیمتوں کو بڑھانے کا فیصلہ صورت حال میں مزید ابتری کا باعث بنے گا۔
لیکن بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی ٹیکس کی مد میں صرف 20 ارب روپے کی وصولی ممکن ہو سکی ہے جب کہ بجٹ میں اس کا ہدف 120 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔
’’40 ارب روپے کا بجٹ خسارہ چھ ماہ میں ظاہر ہو رہا ہو تو اس کا اثر کس پر پڑے گا، اگلے چھ ماہ میں آپ نے مرحلہ وار (بوجھ کو صارف تک) منتقل کرنا ہے بصورت دیگر آپ کا بجٹ خسارہ بڑھے گا، وہ قیمت پھر نوٹ چھاپ کر آپ نے ادا کرنی ہے مہنگائی اس سے بڑھنی ہے ۔ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ یہ قیمتیں صارفین تک منتقل کی جائیں‘‘۔
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس پالیسی کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
دریں اثناء بدھ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں حکومت کی حلیف متحدہ قومی موومنٹ اورحزب مخالف کی جماعتوں کے اراکین نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے پر احتجاج کرتے ہوئےاجلاس سے علامتی واک آؤٹ کیا۔
منگل کی رات ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق نئی مقرر کردہ قیمتوں کے تحت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 5روپے 37پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی قیمت 89.54 سے بڑھ کر 94.91 روپے ہو گئی ہے۔
ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 4 روپے 64پیسے اضافے کے بعد 98روپے92 پیسے سے بڑھ کر 103.46 ہو گئی ہے جب کہ مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 2روپے78 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی فی لیٹر قیمت 89 روپے 24 پیسے ہو گئی ہے۔
ملک کو اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور ہفتے میں تین روز کے لیے سی این جی کی سپلائی بند رکھنے کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈ نگ بھی جاری ہے۔
اوگرا نے سی این جی کی قمیت میں بھی 72 پیسے فی کلو اضافہ کر دیا ہے۔