روز مرہ ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ؛ کیا قیمتوں میں اضافہ ہو گا؟

پاکستان کی نگراں حکومت نے چند ضروری ادویات کے علاوہ باقی تمام روز مرہ استعمال کی جانے والی ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ادویات ساز کمپنیاں ان میڈسن کی قیمتوں کا تعین خود کر سکیں گی۔

وفاقی کابینہ کے اس فیصلے بعد مارکیٹ میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے کیوں کہ اب قیمتوں کا تعین مارکیٹ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر ہو گا۔

کابینہ سے منظوری کے بعد وزارتِ صحت نے قیتمیوں کی ڈی ریگولیشن کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق ڈریپ ایکٹ 1976 میں تبدیلی سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کے کردار کو ختم کرتے ہوئے دواؤں کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے دوا ساز کمپنیوں کو اختیار دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق 'نان ازینشل میڈیسنز' یعنی روز مرہ کی ادویات پر ہو گا۔

پاکستان میں ادویات کو دو کیٹیگریز ضروری اور روز مرہ استعمال کی جانے والی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اب روز مرہ استعمال کی دوائیں یعنی بخار، سر درد، بلڈ پریشر، اینٹی بائیو ٹکس، اینٹی الرجی اور ملٹی وٹامنز کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہو گا جب کہ ازینشل دوائیں یعنی جان بجانے والی دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کا اختیار کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہو گا۔

کیا دوائیں عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں گی؟

محمد رشید نامی بزرگ شہری نے حکومت کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئے روز دواؤں کی قیمتوں میں اضافے نے انہیں شدید پریشان کر رکھا ہے اور یہ جیب پر بھاری پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں دوائیں 1500 کی آتی ہیں تو اگلے ماہ میڈیکل کے کاؤںٹر پر جاؤ تو پتہ چلتا ہے کہ بل 2500 سے اوپر نکل گیا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سرکاری عہدیدار نے تسلیم کیا کہ حالیہ اقدام سے مریضوں کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ: بچ جانے والی ادویات کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے؟

ان کے بقول "ڈریپ کی ضروری ادویات کی فہرست میں صرف 464 دوائیں ہیں جب کہ مارکیٹ میں تقریبا 1300 سے 1500 دوائیں موجود ہیں۔ اس حساب سے تقریباً 1200 دواؤں کے قیمتیں بڑھانے کا اختیار دوا ساز کمپنیوں کے پاس چلا جائے گا۔"

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پہلے بھی حکومت نیوٹرا سوٹیکلز یعنی غذائیت کی کمی کو پورا کرنے والی دواؤں کے ساتھ یہ تجربہ کر چکی ہے جس کے کے تحت اگر پہلے ان کی قیمت 15 روپے ہوتی تھی تو ڈی ریگولیشن کے بعد ڈھائی ہزار یا اس سے بھی زائد قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔

ادویہ ساز کمپنیوں کو دیے گئے اس اختیار کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے وزیرِ صحت، ڈریپ سی ای او اور ترجمان وزارتِ صحت سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی مؤقف نہیں دیا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نئی آنے والی حکومت اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے۔

روز مرہ استعمال کی دواؤں کی قیمتیں بڑھانا نیشنل میڈیسن پالیسی کا حصہ

نگراں حکومت کی جانب سے روز مرہ استعمال کی جانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھانا حکومت کے جانب سے ترتیب دی گئی نیشنل میڈیسن پالیسی کا حصہ ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی ابھی منظر عام پر نہیں آئی لیکن اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔

نیشنل میڈیسن پالیسی کے لیے حکومتی معاون ایاز کیانی نے بتایا کہ پالیسی میں یہ لکھا گیا ہے کہ ضروری دواؤں کی قیمتیں حکومت جب کہ روز مرہ استعمال کی دواؤں کی قیمتیں ادویہ ساز کمپنیز بڑھائیں گی۔

لیکن دوسری شق میں حکومت شہریوں تک ضروری دواؤں کی رسائی خود ممکن بنائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل بات پالیسی کے درست اطلاق کی ہے۔

ایاز کیانی کے مطابق تقریبا 70 فی صد دوائیں ضروری اور 30 فی صد روز مرہ استعمال کی جانے والی کیٹیگری میں آتی ہیں۔

پاکستان میں ادویات ساز کمپنیاں بہت عرصے سے قیمتوں کا تعین مارکیٹ میں طلب و رسد کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

ایک دوا ساز کمپنی کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ ان کے صنعت کے لیے یہ اقدام بہت اچھا ہے اس سے دواؤں کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "پہلے جو دوائیں کافی عرصے سے مختلف وجوہات کی بنا پر کمپنیز نہیں بنا پا رہی تھیں اب وہ بنانا آسان ہو جائے گا۔"