"میں افغانستان کے حالات کے پیشِ نظر کسی بھی طور پر وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہاں بچیوں کی تعلیم پر پابندی ہے اور صحت سمیت بنیادی ضروریاتِ زندگی نہ ہونے کے برابر ہیں۔"
یہ کہنا ہے پاکستانی خاتون زینت بی بی کا جنہوں نے شادی کے فوراً بعد اپنے افغان شوہر عرفان اللہ کو پاکستانی یا عارضی شہریت دلوانے کے لیے وفاقی وزارتِ داخلہ کو کئی درخواستیں دے رکھی تھیں لیکن انہیں کسی بھی درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پشاور کے نواحی علاقے پخہ غلام سے تعلق رکھنے والی زینت بی بی اور افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ کے عرفان اللہ خان 2011 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر حکومتِ پاکستان کے اکتوبر 2023 کے فیصلے سے دونوں سخت پریشان تھے۔
لیکن پشاور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے پر دونوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میں رہائش پذیر افغان باشندوں کے مقامی افراد سے شادی کرنے والوں کو رہائش یا شہریوں کے حقوق فراہم کرنے کی درخواست کی منظوری کا فیصلہ جاری کیا ہے۔ اس فیصلے میں پاکستانیوں سے شادی کرنے والے افغان باشندوں کو پاکستان اوریجن کارڈ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عرفان اللہ خان کہتے ہیں افغانستان ان کا آبائی ملک ہے اور وہ ایک نہ ایک دن وہاں ضرور جائیں گے لیکن بے یقینی کی صورتِ حال کی وجہ سے وہ وہاں نہیں جا سکتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا "مجھے عدالت کے فیصلے پر خوشی ہوئی ہے اور اب کم از کم میرے بچے کسی نہ کسی حد تک تعلیم تو حاصل کر سکیں گے۔"
SEE ALSO: افغان باشندوں کی بے دخلی پر سپریم کورٹ میں سماعت؛ 'اُمید ہے عدالت مہاجرین کی آواز سنے گی'انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2023 کو حکومتِ پاکستان کے فیصلے نے انہیں اور ان کے خاندان کے تمام افراد کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔
لیکن اب پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد انہیں کچھ اطمینان ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے پر ایڈووکیٹ صہیب ملک کہتے ہیں فیصلے کے مطابق پاکستان اوریجن کارڈ کے اجراء کا عمل اب نادرا کے ذریعے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو ماضی میں وفاقی وزارتِ داخلہ کے اختیار میں تھا۔
اسی طرح ایڈووکیٹ طارق افغان کے خیال میں پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پاکستانی مرد و خواتین سے شادیاں کرنے والوں کو ایک ایسے وقت میں سہولت مل جائے گی جب حکومتِ پاکستان افغان باشندوں کو وطن واپس بھجوا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ طارق افغان نے کہا کہ یہ فیصلہ در اصل آئین کے آرٹیکل 35 کے عین مطابق ہے جس میں شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
ان کے بقول اس فیصلے میں افغان باشندوں کو ووٹ ڈالنے اور پاکستانی پاسپورٹ کے حصول سے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد نے کی تھی جس کے بعد 33 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا گیا۔
دونوں جانب سے درخواستوں کے حق اور مخالفت میں دلائل سننے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے 109 افغان باشندوں کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں نادرا ایکٹ کے تحت پاکستان اوریجن کارڈ دینے کا حکم جاری کیا تھا اور درخواست گزاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ پاکستان اوریجن کارڈ ( پی او سی) کے لیے متعلقہ فورم میں اپلائی کریں۔
فیصلے کے مطابق پاکستانی شہریوں سے شادی کرنے والے افغان باشندوں کی پی او سی کے لیے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی ایک مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ وہ یہاں چار دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔
وکیل صہیب ملک کے بقول جن جوڑوں کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے انہیں بھی پاسپورٹ اور دیگر مراعات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بنیاد رکھ کر عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ پاکستانی باشندوں سے شادی کرنے والوں کو ضروری دستاویزات کی فراہمی کے بعد پی او سی کارڈ جاری کیے جائیں اور ان کے نکاح رجسٹرڈ کرانے میں آسانی پپدا کی جائے۔
عدالتی فیصلے میں ان درخواستوں کو مسترد کرنے کا کہا گیا ہے جن کی کلیئرنس نادرا سے نہیں ہو سکی۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں پاکستانی باشندوں کے ساتھ شادیاں کرنے والے افغان مرد اور خواتین کو پاکستان اوریجن کارڈ کے اجرا کو نادار کی کلیئرنس سے مشروط کیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ سہیل احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نادرا کی کلیئرنس کو نکاح نامہ، بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ، معاشی و تجارتی کاروبار وغیرہ سے مشروط کیا گیا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے فراہم کردہ اجازت نامے کے تحت اس قسم کے افغان باشندوں کو پاکستان میں عارضی طور پر رہائش کی اجازت دی جاتی تھی ۔ مگر وزارتِ داخلہ افغان باشندوں، جن کی شادیاں پاکستان میں ہوئی ہوں ان کی درخواستوں پر عمل درآمد بہت تاخیر سے کرتی تھی۔ مگر اب پشاور ہائی کورٹ نے نادرا کو اس قسم کہ درخواستوں کو جلد از جلد نمٹانے کا حکم دیا ہے۔