پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی عدالتِ عالیہ نے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران ایک گھر پر بمباری سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو ایک مہینے کے اندر دیت کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ بدھ کو خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے کوکی خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک فرد خان ولی کوکی خیل کی درخواست پر سنایا۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ 24 جولائی 2014ء کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران جنگی طیاروں نے ان کے گھر پر بمباری کی تھی۔
بمباری کے نتیجے میں درخواست گزار خود زخمی ہوگئے تھے جب کہ ان کی بیوی، تین بیٹے اور دو بیٹیوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
درخواست گزار کے مطابق بعد میں سکیورٹی حکام کو پتا چلا تھا کہ بمباری کا نشانہ بننے والا گھرانہ بے گناہ تھا۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سکیورٹی فورسز کی اس کارروائی کو قتل کا واردات قرار دیا جائے اور اس کی تحقیقات کا حکم دے کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
درخواست کی سماعت کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قیصر رشید اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست گزار کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے حکومت کو ایک مہینے کے اندر اندر متاثرہ خاندان کو دیت کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق اگر حکومت نے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا تو متعلقہ حکام کے خلاف توہینِ عدالت کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
عدالت میں درخواست گزار کی پیروی کرنے والے عماد انجم ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیوں یا دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا جاتا اور ان کے بقول اسی بنیاد پر متاثرہ خاندان کے سربراہ نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں گزشتہ کئی برسوں سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری ہیں جو فوجی حکام کے بقول اب آخری مراحل میں ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات اس سے قبل بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
لیکن بمباری یا فوجی کارروائی سے متاثر ہونے والے کسی قبائلی کی جانب سے اپنے یا خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔