پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹراپارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس جمعے تک نمٹانے کا حکم دیا ہے۔
جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رُکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
سماعت کے دوران جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ملکی حالات کا پتا ہے سپریم کورٹ بھی تمام پارٹیوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے بارے میں کہہ چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، نعمان الحق کاکاخیل، شاہ فیصل الیاس اور سید سکندر شاہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے حکم پر دو دسمبر کو انٹراپارٹی الیکشن کرائے تھے جس میں عمران خان کے نامزد کردہ بیرسٹر گوہر خان پارٹی کے نئے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔
تاہم پارٹی کے بانی رُکن اکبر ایس بابر نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے یہ الیکشن کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کے ہوتے ہوئے پارٹی چند وکلا کے حوالے کر دی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات عائد کیے تھے۔
پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران مزید کیا ہوا؟
سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس شکیل احمد نے پی ٹی آئی کے وکلا سے استفسار کیا کہ اپ نے اس پٹیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیوں داخل نہیں کیا؟ کیوں کہ الیکشن کمیشن کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہے اور کیا ہم اس کی سماعت کر سکتے ہیں؟
بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ آئینِ پاکستان میں فیڈریشن کا لفظ موجود ہے اور فیڈریشن کے خلاف چاروں ہائی کورٹس کو کیسز کی سماعت کا اختیار ہے اور وہ اس میں رٹ جاری کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں کون الیکشن لڑ سکتا ہے اور اُمیدوار کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بائیو میٹرک کی شرط ہے اور اس وقت پی ٹی آئی کی بیشتر قیادت پابندِ سلاسل ہے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا۔
بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر اعتراضات اٹھائے حالاں کہ الیکشن ایکٹ 2009 کے تحت تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔
بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی الیکشن کے خلاف اکبر ایس بابر نے درخواست دی نہ تو وہ پارٹی کے رُکن ہیں اور نہ ہی اس سے متاثرہ فریق ہیں۔ کیوں کہ پی ٹی ائی نے انہیں 10 برس قبل پارٹی سے نکالا تھا۔
'لوازمات پورے نہیں کیے گئے'
الیکشن کمیشن کے وکیل کامران صدیق نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو ان نوٹسز کے خلاف پشاور ہائی کورٹ آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن نے اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن کے لیے ضروری لوازمات پورے نہیں کیے گئے جس پر انہیں ایک اور نوٹس جاری ہوا کیوں کہ الیکشن کمیشن ان کے جواب سے مطمئن نہیں تھا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ دو دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کس نے اور کب کیا؟ جس نے اعتراض کیا ہے کیا وہ رجسٹرڈ ممبر ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں جو کمنٹس عدالت کو فراہم کیے گئے ہیں ان میں ان سارے سوالوں کے جواب موجود ہیں یہاں پر سوال صرف دائرۂ اختیار کا ہے کیوں کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ جاری نہیں کیا تو کس طرح یہ یہاں پر رٹ دائر کر سکتے ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کو جمعے تک قانون کے مطابق پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔