امریکہ کی ریاست میری لینڈ کے مقام ڈیوڈ سن ول میں لنڈا میکارتھی ایک آرٹسٹ ہیں اور وہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی تصاویر لیتی ہیں۔ ان میں سکول، طالب علم، فیملی فوٹوز اور مخصوص انداز کی تصاویر سبھی شامل ہیں۔ وائس آف امریکہ کی نمائیندہ فائزہ المصری کی رپورٹ کے مطابق میکارتھی نے گزشتہ برس فوٹو گرافی کا ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا اور اسے نام دیا ’سروائورز‘ کا ۔ اس پراجیکٹ کا محور وہ خواتین ہیں جو یا تو چھاتی کے سرطان یعنی بریسٹ کینسر کا علاج کرا رہی ہیں یا علاج کے بعد معمول کی زندگی گزار رہی ہیں ۔
شیرل لسٹمن مالیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ سنگل مدر ہیں اور ’سروائورز‘ پراجیکٹ میں شریک بیس خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 2013 میں مجھے بتایا گیا کہ مجھے بریسٹ کینسر ہے اور مرض اپنے دوسرے درجے میں ہے اور یوں میرے بچنے کا امکان محض 40 فیصد ہے۔
لسٹمن نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بیماری کا بھرپور انداز میں مقابلہ بھی کیا۔ ان کی ملاقات اپنے کچھ دوستوں کے توسط سے فوٹوگرافر لنڈا میکارتھی سے ہوئی۔
لسٹمن بتاتی ہیں کہ وہ عورتوں کے ساتھ کام کرتی ہوں اور ان عورتوں کو آگاہی اور واقفیت دیتی ہیں جو اس سفر سے گزر رہی ہیں ۔ وہ انہیں اس کے طبی پہلو کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ جب لنڈا میکارتھی نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے سوچا کہ ممکن ہے اس طرح وہ خواتین کی ایک اور انداز میں مدد کر سکیں اور پھر وہ خود بھی اس بات کا اندازہ کریں کہ وہ اپنے اس سفر سے کیسے گزریں اور اُنہوں نے کس حد تک کامیابی حاصل کی۔
لنڈا میکارتھی کہتی ہیں کہ بریسٹ کینسر سروائورز کے پراجیکٹ کا خیال انھیں اس وقت آیا جب وہ ایک بیلرینا کے پورٹ فولیو کے لئے ان کی تصاویر بنانے کے بارے میں غور کر رہی تھیں ۔
میکارتھی کہتی ہیں کہ اُن کا تعارف میگی سے کرایا گیا۔ ان کی عمر 23 سال تھی۔ جب معلوم ہوا کہ ان کا بریسٹ کینسر چوتھے درجے میں ہے جہاں ان کی بریسٹ کو کاٹ کر الگ کرنا تھا۔ اُنہوں نے ان سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ کیا وہ ان کی تصاویر بنا سکتی ہیں۔ بیلرینا کے طور پر نہیں بلکہ ایک خوبصورت لڑکی کی حیثیت سے جسے بریسٹ کینسر کا سامنا ہے۔
میکارتھی بتاتی ہیں کہ وہ اس مرض کی شکل دکھانا چاہتی تھیں۔ وہ ان کی تصاویر مکمل عورتوں کے طور پر بنانا چاہتی تھیں، حصوں کے طور پر نہیں جیسا کہ وہ اس بیماری کی وجہ سے سوچتی تھیں ۔ وہ سرجری کے نشانات نہیں چاہتی تھیں اور نہ ہی بیماری سے جڑی کوئی نشانی۔ وہ چاہتی تھیں کہ وہ محسوس کریں کہ وہ کتنی خوبصورت ہیں۔ وہ اس مرض کو شکست دے کر ، ’سروائورز‘ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ انہیں اپنا نکتہ نظر تبدیل کرنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ مجھے دیکھیے، ہاں یہ میں ہوں اور میں سر وائور ہوں۔ آپ میری ان تصویروں میں ان کے اندر پیدا ہونے والی اس تبدیلی کو محسوس کر سکتے ہیں۔
اس پراجیکٹ میں شریک ہر خاتون کو میک اپ آرٹسٹ وکٹوریہ رونین کے ساتھ مشاورت کرنا پڑتی ہے۔
میک اپ آرٹسٹ وکٹوریہ رونین کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ ہوا کہ ان خواتین نے میک اپ نہیں کیا۔ کافی وقت گزر گیا اور انھوں نے اپنے لئے کچھ نہیں کیا۔
رونین کہتی ہیں کہ جب ہماری ملاقات ختم ہوتی ہے تو بیشتر خواتین حیران ہوتی ہیں۔ لیکن وہ خوش بھی ہوتی ہیں ۔
وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس ایسی بہت سی خواتین آتی ہیں جو میک اپ ختم ہونے کے بعد آئینہ دیکھتی ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں ۔ انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ میرے میک اپ کے بعد وہ کتنی خوبصورت نظر آ رہی ہیں ۔‘‘
لسٹمن کا کہنا ہے کہ جب آپ سرطان جیسے مرض کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے آپ کو تقویت ملتی ہے کہ آپ خوبصورت نظر آ رہے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں ، ’’یہ بات بے حد اہم ہے کہ جب آپ علاج معالجے کے اس خوفناک سفر کو طے کر رہے ہوتے ہیں تو آپ خود کو خوبصورت خیال نہیں کرتے ۔ بیماری کی وجہ سے آپ کے جسم پر اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی آپ متاثر ہوتے ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کو آپ کبھی بھلا نہیں پاتے کہ ایک وقت ایسا تھا جب آپ خوبصورت نہیں لگتے تھے۔ جب بیماری کے سفر میں آپ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو ایک بار پھر اپنی خوبصورتی کا احساس ہو تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کا مشن مکمل ہو جاتا ہے۔
چھاتی کے سرطان سے بچ جانے والوں کی تصاویر کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا اور یہ بھی سروائورز پراجیکٹ کا ایک پہلو ہے اور ایسا مقامی کاروباروں کی مدد سے ممکن ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میکارتھی نے فنڈز جمع کرنے کا بھی آغاز کیا ہے۔
میکارتھی کہتی ہیں کہ فنڈز اکٹھا کرنے کے آغاز پر اُنہوں نے بریسٹ کینسر سے صحت یاب ہونے والوں کی تصاویر کی نمائش کا اہتمام بھی کیا۔ بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے اور اُنہوں نے اس روز اپنے مقامی ہسپتال اور وہاں کے بریسٹ کینسر سنٹر کے لئے پانچ ہزار ڈالر جمع کر لئے ۔
میکارتھی کہتی ہیں کہ یہ ایک مثبت ردعمل تھا جس نے ان کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنے پراجیکٹ کو جاری رکھیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ کبھی اپنے ان تجربات کے بارے میں کتاب بھی لکھیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5