پاکستان میں پارلیمان کی کارکردگی اور قانون سازی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل عوام میں فوج، عدلیہ اور نجی میڈیا کے جانب دار ہونے کا قوی تاثر موجود ہے۔
سینئر صحافی مطیع اللہ جان صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بہت زیادہ جوڈیشل ایکٹوازم دیکھنے کو ملا۔ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹس بھی متحرک رہیں اور سیاست دان ان کا نشانہ بنے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس اور بیانات انتہائی جارحانہ اور سخت تھے۔ اقامے پر فیصلہ ضرور سنایا گیا لیکن پاناما پر ابھی تک فیصلہ نہیں آیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارکان اسمبلی کی شکایات سامنے آئیں کہ انھیں پارلیمان کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت راتوں رات تبدیل کرائی گئی۔ سینیٹ انتخابات میں مداخلت ہوئی۔ جنوبی پنجاب میں سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ان معاملات میں براہ راست فوج کی طرف اشارہ کیا گیا۔
جسٹس وجیہہ الدین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بہت بڑی اکثریت ان پڑھ ہے۔ میڈیا کے بارے میں اس کی کوئی رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگ فوج یا عدلیہ کے بارے کیا تاثر قائم کر سکتے ہیں؟
پاکستان کی فوج نے تاریخ میں پہلی بار گزشتہ دس سال میں سویلین امور اور آئینی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ عدلیہ نے صرف حکومت کے غلط کاموں کو روکا ہے۔ چنانچہ فوج اور عدلیہ سے متعلق معاملات پہلے سے بہتر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں منفی تاثر تعلیم سے محرومی کا نتیجہ ہے۔
ممتاز دانشور غازی صلاح الدین نے کہا کہ پلڈاٹ کی رپورٹ نہ صرف درست ہے بلکہ انھوں نے کافی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی ہو چکی۔ اس کا انتخابات پر جو اثر پڑ سکتا ہے، وہ پڑے گا۔ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی اگر خواہش ہو تو وہ آئندہ دو ماہ میں کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی میڈیا خوف کا شکار ہے اور سیلف سنسرشپ سے کام لے رہا ہے۔ ان حالات میں عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اسے منظرعام پر لانے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
پاکستان میں کئی سیاست دان اور تجزیہ کار ایک عرصے سے کہہ رہے تھے کہ آئندہ عام انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے بعض حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ لیکن سیاست دانوں کے الزامات پر دھیان نہیں دیا گیا اور تجزیہ کاروں کی رائے کو تعصب پر مبنی قرار دیا جاتا رہا۔
لیکن اب پلڈاٹ کی رپورٹ کے بعد ان خدشات کو مزید تقویت ملنے کا اندیشہ ہے۔