امریکہ کے بڑے فاسٹ فوڈ اسٹورز پر جب آپ امپاسیبل برگر کا آرڈر دیتے ہیں تو آپ کو گرما گرم برگر ملتا ہے جس سے بیف کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے۔ جب آپ اس کا ایک لقمہ توڑتے ہیں تو آپ کو بیف کے رسیلے ذائقہ دار گوشت کا لطف ملتا ہے۔ لیکن یہ گوشت نہیں ہے۔
اس گوشت جیسی چیز کو آپ پودوں کا گوشت کہہ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ سائنس دانوں نے جینیاتی تبدیلیاں کر کے پودوں پر گوشت اگانا شروع کر دیا ہے۔ اور اب گوشت کھانے کی آپ کی خواہش پوری کرنے کے لیے جانوروں کو اپنی جان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
تاہم یہ گوشت بنانے کے لیے سائنس دانوں نے پودوں میں کوئی جینیاتی تبدیلیاں نہیں کیں۔ اور نہ ہی یہ گوشت پودوں پر پھلوں اور پھولوں کی طرح اگ رہا، بلکہ اسے پودوں کے اجزا سے لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں اس وقت دو فوڈ کمپنیاں پودوں سے گوشت تیار کر رہی ہیں جن میں سے ایک امپاسیبل فوڈز(Impossible Foods) اور دوسری بی آئنڈ فوڈز(Beyond foods) ہیں۔ دونوں کے اجزا میں معمولی سا فرق ہے جس سے ان کے ذائقے اور ساخت میں بھی قدرے فرق دکھائی دیتا ہے، لیکن دونوں کے بنائے ہوئے گوشت کی بنیاد پودے ہی ہیں۔
ان دنوں پودوں کا جو گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، اس کا ذائقہ، خوشبو، رنگت اور ساخت ہو بہو گائے کے گوشت یا دوسرے لفظوں میں بیف جیسی ہے۔ اسے زیادہ تر برگر اور اسی طرح کے دوسرے پکوانوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی بیف کے پیکٹ گراسری اسٹوروں میں بھی آسانی سے مل جاتے ہیں جس سے آپ گھر پر اپنی پسند کا کھانا تیار کر سکتے ہیں۔
پودوں سے تیار کردہ گوشت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہر مذہب اور عقیدے کا شخص اسے کسی وسوسے اور اندیشے کے بغیر کھا سکتا ہے۔ اسے گوشت سے پرہیز کرنے والے افراد بھی کھا کر بیف کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
پودوں کے گوشت کا بانی پیٹرک براؤن کو سمجھا جاتا ہے۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر اور سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور کیلی فورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے کوئی ایسا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش میں تھے جو جانوروں کے گوشت کی جگہ لے سکے۔
اپنے تجربات کے دوران انہیں پودوں میں ہیم (Heme) نامی ایک مرکب ملا۔ یہ ایک خون جیسا مرکب ہے جو تمام زندہ چیزوں میں پایا جاتا ہے اور یہی وہ مرکب ہے جو گوشت کو مخصوص ذائقہ، رنگت اور خوشبو دیتا ہے۔
پروفیسر براؤن نے 2011 میں سویابین اور آلو سے حاصل کردہ ہیم میں کھوپرے کا تیل اور وٹامنز شامل کر کے پہلی بار مصنوعی بیف متعارف کرایا۔ اور اپنی ایک فوڈ کمپنی قائم کی۔ شروع دنوں میں یہ کمپنی فاسٹ فوڈ کے چند اسٹوروں پر بیف کے قیمے کے پیکٹ فراہم کرتی تھی جس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس کا دائرہ پھیلنے لگا۔
جب آپ کسی برگر اسٹور پر امپاسیبل برگر کا آرڈر دیتے ہیں تو آپ کو جو برگر فراہم کیا جاتا ہے، اس میں دیگر لوازمات کے ساتھ بیف کا کباب دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس کی رنگت پکے ہوئے قیمے جیسی ہوتی ہے۔ اس سے قیمے کی خوشبو اٹھ رہی ہوتی ہے اور آپ کو کہیں کہیں خون جیسے ننھے قطرے بھی چھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ کھانے میں بھی وہ بیف کے قیمے جیسا ہی ہوتا ہے۔ اسے کھاتے ہوئے آپ کو بڑی مشکل سے خود کو یہ یقین دلانا پڑے گا کہ یہ گائے کا گوشت نہیں ہے بلکہ پودوں سے بنایا گیا متبادل گوشت ہے۔
ان دنوں فراہم کیے جانے والے مصنوعی بیف میں کم و بیش 20 اجزا اور مرکبات شامل ہوتے ہیں۔ جو کم و بیش وہی چیزیں ہیں جو گائے کے گوشت میں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ غذائی لحاظ سے بھی یہ مصنوعی گوشت اصل گوشت کے قریب تر ہوتا ہے۔ بلکہ اسے انسانی صحت کے لیے مزید مفید بنانے کی خاطر اس میں کچھ اضافی وٹامنز اور معدنیات شامل کی جاتی ہیں یا ان کی مقدار میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔
اگرچہ پہلے ہی سے ان لوگوں کے لیے، جو گوشت سے احتراز کرتے ہیں، سویابین اور دیگر نباتاتی اجزا سے ایک کباب بنایا جا رہا ہے جو برگرز وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ذائقہ سبزی جیسا ہوتا ہے۔ مگر یہ پہلا ایسا نباتاتی گوشت ہے، جو ہر لحاظ سے گوشت جیسا ہے اور جس کا لطف گوشت نہ کھانے والے بھی اٹھا سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نباتاتی گوشت دنیا کا مستقبل ہے۔ انہیں توقع ہے کہ 2035 تک مصنوعی گوشت جانوروں کے گوشت کی جگہ لے لے گا۔ اس کی وجہ کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور اس کے منفی اثرات ہیں۔
مویشیوں سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں زمین کا تقریباً 30 فی صد حصہ مویشیوں کی افزائش، ان کی خوراک اور فارمنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جب کہ انسانی آبادی کے لیے زمین کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی قربانی جانوروں کو دینی پڑے گی۔
بڑے سائز کے جانور مثلاً گائے بھینیس وغیرہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا لگ بھگ 18 فی صد حصہ خارج کرتے ہیں۔ اگر ہمیں کرہ ارض کو گلوبل وارمنگ سے بچانا ہے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر بھی کنٹرول کرنا ہو گا۔ جس کے پیش نظر ہر آنے والے دن کے ساتھ نباتاتی گوشت کی طلب بڑھتی جائے گی۔
بہت سے لوگ بیف پر مچھلی یا چکن کو ترجیج دیتے ہیں۔ ان کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سائنس دان پودوں سے ایسا مصنوعی گوشت بنانے کے تجربات کر رہے ہیں جو چکن اور مچھلی کی جگہ لے سکے۔
اس وقت نباتاتی بیف صرف قیمے کی شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔ اب یہ کوشش جاری ہے کہ روایتی گوشت کی طرح اس کے بھی ٹکڑے بنائے جائیں تاکہ گھروں میں انہیں اسی طرح پکایا جا سکے جیسے ہمارے ہاں گوشت کے کھانے بنتے ہیں۔