|
امریکی حکومت کی ایک سالانہ رپورٹ میں غزہ کی جنگ کے دوران دنیا بھر میں یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔
بدھ کے روز، امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور بین الاقوامی مذاہب کے خصوصی سفیر رشاد حسین نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی عالمی صورتحال سے متعلق سال 2023 کی رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہےکہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اب بھی مذہبی آزادی کے احترام نسے محروم ہیں۔۔ بلنکن نے اپنی تقریر میں غزہ کے تنازع کا بھی حوالہ دیا۔
بلنکن نے کہا کہ ،"7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے خوفناک دہشت گرد حملے اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے غزہ کے تنازعے کے بعد سے، دنیا بھر میں صیہون مخالفت اور اسلاموفوبیا دونوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم اور مسلمانوں اور یہودیوں کو نشانہ بنانے والے دوسرےواقعات کی رپورٹس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔"
بلنکن نے کہاکہ کچھ ملکوں نے ، جن میں سعودی عرب شامل ہے ، جسے امریکی محکمہ خارجہ نے خاص تشویش کا ملک قرار دیا ہے ،رواداری اور مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
تاہم، کچھ قریبی امریکی شراکت داروں پر تنقید کی گئی ہے ۔
بلنکن نے اپنے تبصرے میں کہا " دیگر 9 یورپی ملکوں میں ایسے قوانین نافذ ہیں جو عوامی مقامات پر کچھ مخصوص مذہبی لباس پر مؤثر طریقے سے پابندی عائد کرتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا،"بھارت میں ہم تبدیلی مذہب ، نفرت پر مبنی تقاریر، اقلیتی عقیدے کی کمیونٹیز کے گھروں اور عبادت گاہوں کو ڈھادینے میں تشویشناک اضافہ دیکھتے ہیں۔"
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے خصوصی سفیر حسین نے چین کو 2023 میں بنیادی حقوق کی بار بار خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ایک قرار دیا۔
رشاد حسین نے کہا کہ چینی حکومت سنکیانگ میں یغورنسل کے مسلمانوں اور دوسرے نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کے ارکان کے خلاف جبر کا ارتکاب کررہی ہے ۔ یہ جبر تبتی بودھ کمیونٹی سے لے کر مسیحی اور فالن گونگ پیروکاروں تک، مذہبی کمیونٹیز پرکئی عشروں سے روا رکھے گئے استبداد کے بعد ہورہا ہے۔
اس سال چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے، فالون گونگ عقیدے کے پیروکاروں کے خلاف پکڑ دھکڑ کو 25 سال مکمل ہو جائیں گے ۔"
بیجنگ نے بین الاقوامی مذمت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کو رکھنے کے لیے جن کیمپوں کا استعمال کرتا ہے وہ ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز ہیں۔
امریکہ میں چین کے سفارت خانے نے کہا کہ واشنگٹن چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کے لیے "مذہبی مسائل" کا استعمال کر رہا ہے۔
محکمہ خارجہ کی رپورٹ اس وقت جاری کی گئی جب تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ اتوار کو اپنےگھٹنے کے علاج کے لیے نیویارک پہنچے۔ اور ہزاروں پیروکاروں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔
SEE ALSO: امریکی قانون سازوں کی بھارت میں دلائی لامہ سے ملاقات، چین کی دورے کی مخالفتچین انہیں چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں میں مصروف سیاسی جلاوطن سے تعبیر کرتا ہے ۔ بیجنگ نےتبت کو،جس پر اس نے 1950 میں قبضہ کیا تھا، "زیزانگ" کا نام دیا ہے ۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک استاد انیتا کیلوگ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات تبتی لوگوں کی منفرد ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مجروح کرتے ہیں۔
انہوں نےزوم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انکے خیال میں یہ نظر انداز کرنے سے زیادہ کی بات ہے۔ چین فعال طور پر اسے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ وہ اپنی تمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کر رہا ہے۔"
2023 کی رپورٹ میں محکمہ خارجہ کی جانب سے خاص تشویش کے حامل دوسرے ملکوں اور اداروں، مثلاً پاکستان، ایران، میانمار، شمالی کوریا، روس اور طالبان کا بھی مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر ایک بار پھر حوالہ دیا گیا ہے۔
وی او اے نیوز۔