وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کابینہ کی تشکیل سے قبل بدھ کی صبح اپنی جماعت کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے مری میں ملاقات کی ہے۔
ملاقات میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی شریک تھے۔
طویل مشاورتی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کابینہ سے متعلق مشاورت ہوئی ہے اور اُن کے مطابق یہ مرحلہ آئندہ ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گا۔
’’نئی کابینہ جس کے حلف اٹھانا ہے، اس بارے میں بھی مشاورت ہوئی۔۔۔ اگلے ایک دو دن میں کابینہ حلف اٹھا لے گی۔۔۔۔ پارٹی کے اُمور پر بھی مشاورت ہوئی۔۔۔ مسلم لیگ (ن) حلقہ این اے 120 کے انتخابات میں بھی اور دیگر سیاسی مراحل میں پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کرے گی۔‘‘
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ حکومت جاری پالیسیوں کو برقرار رکھا جائے۔
’’تاکہ ہم دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ ملک میں وزیراعظم تو بدل سکتا ہے لیکن پالیسی برقرار رہتی ہے۔‘‘
شاہد خاقان عباسی منگل کو قومی اسمبلی کے 342 اراکین کے ایوان سے 221 ووٹ لے کر وزیرِاعظم منتخب ہوئے تھے اور اپنی پہلی تقریر میں بھی اُنھوں نے اپنی جماعت کے قائد نواز شریف کو ’’عوام کا وزیرِاعظم‘‘ قرار دیتے ہوئے اُن کا بھرپور دفاع کیا تھا۔
شاہد خاقان عباسی عبوری مدت کے لیے وزیرِاعظم بنے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی جماعت کی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ جیسے ہی شہباز شریف قومی اسمبلی کے حلقے سے منتخب ہوئے تو اُنھیں موجودہ قومی اسمبلی کی مدت تک کے لیے بطور وزیرِاعظم منتخب کرایا جائے گا۔
اگرچہ شاہد خاقان عباسی اور اُن کی جماعت کے دیگر رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ شاہد خاقان بااختیار وزیرِاعظم ہوں گے لیکن حزب مخالف کی جماعتوں خاص طور پر تحریکِ انصاف کے رہنما نواز شریف کا نام لیے بغیر یہ کہتے آئے ہیں کہ اصل حکومت پیچھے بیٹھ کر کوئی اور کرے گا۔
تحریکِ انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ شاہد خاقان خود بحثیت وزیرِاعظم فیصلے کریں۔
’’میری دعا ہے کہ وہ کٹھ پتلی کی طرح نہ چلیں۔۔۔ جو اُن کے اچھے کام ہوں ہم اُن کی پوری مدد کریں گے، لیکن اگر وہ غلط جائیں گے تو ہم بولیں گے۔‘‘
حزبِ مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک منتخب وزیرِاعظم کو عبوری مدت کے لیے رکھنا اُن کے بقول اچھا اقدام نہیں ہو گا۔
’’موجودہ حکومت جو عبوری وزیرِاعظم کی مثال قائم کر رہی ہے، یہ کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔۔۔۔ ان کے 45 دنوں کے بعد تو موجودہ اسمبلی کی مدت کچھ مہینوں کے لیے رہ جائے گی۔۔۔ بہتر یہی ہو گا کہ (شاہد خاقان عباسی) چلتے رہیں۔‘‘
تاہم مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال کہتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی با اختیار وزیرِاعظم ہوں گے اور اُن کے بقول عبوری مدت کے بعد شہباز شریف کا ممکنہ انتخاب جمہوری عمل کا حصہ ہے۔
شاہد خاقان عباسی کے انتخاب کے بارے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ نواز شریف کی پالیسیاں جاری رہیں گے۔
عام لوگوں کی رائے تھی کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد جس طرح نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہوا اس سے جمہوری عمل کو تقویت ملے گی۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو پاناما کیس سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر تحفظات کے باوجود عمل درآمد کیا گیا ہے۔