پاکستان مسلم لیگ(ن) نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا الیکشن لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔درخواست میں عدالت سے اس الیکشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں ہفتے کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ جس میں نو منتخب اسپیکر سبطین خان اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے وزیرِاعلیٰ پنجاب بننے کے بعد اسپیکر کے عہدے کے لیے جمعے کو ایوان میں ووٹنگ ہوئی تھی، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے سبطین خان 185 ووٹ لے کر اسپیکر منتخب ہوئے تھے ۔ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ (ن) کے سیف الملوک کھوکھر نے175 ووٹ حاصل کیے تھے۔
عدالت عالیہ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر کے الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں۔لیکن انتخاب میں بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر درج کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا جائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ کہتے ہیں کہ اسپیکر اسمبلی کے الیکشن میں ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہےکیوں کہ جب آئین میں اسپیکر کا الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرانے کا کہا گیا ہے تو پھر کس طرح اسے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو ''جوڈیشل وزیرِاعلیٰ'' قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں این آر او کے لیے لایا گیا ہے۔کیوں کہ فرح گوگی کو این آر او دینا مقصود تھا۔
مزید پڑھیے پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی سے وفاقی حکومت پر کیا اثر پڑے گا؟خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح خان پر پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ وہ پسِ پردہ پنجاب حکومت کے معاملات چلاتی رہی ہیں اور انہوں نے غیر قانونی طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پیسہ بنایا ہے۔ تاہم سابق وزیرِ اعظم عمران خان ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل ہے۔ اگر 197 ووٹ والے حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ نہیں رہی تو ایک ووٹ والے وزیرِاعلیٰ کی وزارتِ اعلیٰ کیسے رہ سکتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں پرویز اؒلٰہی کی حکومت زیادہ دیر چلتے نظر نہیں آ رہی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کے بعد چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے تھے۔ اس سے قبل وزارتِ اعلیٰ کے انتخاب میں انہوں نے 186 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے تھے۔
تاہم ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے چوہدری پرویز الہی کے حق میں پڑنے والے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹوں کو مسترد کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں پرویز الٰہی نے اس رولنگ کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر پرویزالٰہی کو وزیرِ اعلیٰ قرار دیا تھا۔