پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما لندن میں موجود ہیں جہاں انہوں نے پارٹی کے قائد نواز شریف کی صحت اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت کی۔
مسلم لیگ (ن) کی پاکستان میں موجود رہنما مریم نواز بھی لندن جانے کی خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
پاکستان کے سیاسی حلقے لندن میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی سرگرمیوں اور ان ہاؤس تبدیلی کی باز گشت کو بغور دیکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کی صدارت میں اتوار کو لندن کے ایک نجی ہوٹل میں پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کے اجلاس میں حکومت مخالف صف بندیوں سمیت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی، آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق قانون سازی سمیت دیگر اہم امور پر مشاورت کی گئی۔
اس اجلاس میں پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ آصف، اسحاق ڈار، رانا تنویر، احسن اقبال، امیر مقام، مریم اورنگزیب اور دیگر شریک تھے۔
شہباز شریف کے مطابق اجلاس کے دوران نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر غور کیا گیا۔ اُن کے بقول، انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے تین نام وزیرِ اعظم کو ارسال کیے ہیں جس کے جواب میں وزیرِ اعظم نے بھی بذریعہ خط تین نام بھیجے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کہ خلوص کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے پر وزیرِ اعظم کے ساتھ گفتگو کریں اور سب سے اچھا امیدوار تعینات کرنے کے لیے افہام و تفہیم پیدا کریں۔
چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے پاکستان میں مروجہ طریقہ کار یہ ہے کہ اس کے لیے وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف کو مل بیٹھ کر مشاورت کے بعد کسی ایک نام پر اتفاق کرنا ہوتا ہے۔
لندن میں مسلم لیگ (ن) کے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ قانونی سازی سمیت دیگر امور پر مشاورت میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان کے قانون کو مطلوب ہیں، پوری کی پوری (ن) لیگ مفروروں کے پاس ڈیرا جمائے بیٹھی ہے۔
فردوس عاشق اعوان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح علاج کرانا ہر قیدی کا حق ہے۔ اسی طرح جرم کا حساب لینا قانون کا حق اور تقاضا ہے۔
مسلم لیگ ن کا لندن میں ہونے والا یہ اجلاس جب اختتام پذیر ہوا تو پارٹی رہنماؤں نے صحافیوں سے گفتگو کی اور ان کے سوالات کے جواب دیے۔
خواجہ آصف سے صحافیوں نے جب سوال کیا کہ اجلاس کے دوران کیا آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی پر بھی گفتگو ہوئی؟ جس پر اُن کا کہنا تھا کہ توسیع کے معاملے پر اس وقت تک کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا جب تک عدالت کا تفصیلی فیصلہ نہیں آجاتا۔
نئے انتخابات کے انعقاد سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اس معاملے پر ہمارا مؤقف ہے کہ پہلا قدم ان ہاؤس تبدیلی ہونی چاہیے جس کے بعد تبدیلی کے لیے نئے انتخابات کرائے جائیں۔
تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں حکمراں جماعت کی قیادت سے نالاں ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل اس کا کئی مواقع پر کھل کر اظہار بھی کر چکے ہیں۔
کسی ایک سیاسی جماعت کی ناراضگی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے تاہم حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ وہ ناراض ارکان کو منا لیں گے۔
وزیرِ دفاع پرویز خٹک پہلے ہی ان ہاؤس تبدیلی کی افواہوں کو غلط قرار دے چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اختلاف ہوتا رہتا ہے، بہت جلد اتحادیوں کے اختلافات بھی ختم کر دیے جائیں گے۔