پاکستان میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی روائتی طور پر قائد حزب اختلاف کے حصے میں آتی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا اور تحریک انصاف کو بادل نخواستہ یہ عہدہ شہباز شریف کو دینا پڑا، جن پر قومی احتساب بیورو یا نیب میں کرپشن کے الزامات کے سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور وہ گزشتہ کئی مہینوں سے قید میں ہیں۔
اب پی ٹی آئی کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ وہ انہیں چیئرمین بنانے پر اس لئے تیار ہوئے تھے تاکہ قانون سازی کا کام درست طور پر آگے بڑھ سکے، جو نہیں ہو رہا۔
سرکاری پارٹی کے بعض ارکان اور اس کے شیخ رشید جیسے اتحادیوں کی جانب سے پرزور طریقے سے شہباز شریف کو اس منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس بارے میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے قمر عباس جعفری نے سیاسی اور آئینی امور کے دو ماہرین، پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب اور معروف کالم نگار اور تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے گفتگو کی۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جرم ثابت ہونے کے بعد ہی کوئی شخص کسی عوامی عہدے کے لئے نااہل ہو سکتا ہے اور چونکہ ابھی شہباز شریف کے خلاف صرف تحقیقات ہو رہی ہیں اور جرم ثابت نہیں ہوا ہے اس لئے قانونی اور دستوری طور سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور یہ سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے اور حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں ہی پوائنٹ اسکورنگ کر رہی ہیں۔
قانون سازی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ حکمراں جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مسودہ قانون لائے اور اسے منظور کرانے کے لئے ماحول کو سازگار بنائے۔
شیخ رشید جیسے حکومتی اتحادیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ سرکاری پارٹی کو ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنا چاہئے کیونکہ ماحول میں تلخی بڑھنے سے زیادہ نقصان حکمراں جماعت ہی کا ہو گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر شہباز شریف اس عہدے سے ہٹایا گیا تو سیاسی طور پر کیا صورت بنے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کا ماحول مزید خراب ہو گا کیونکہ اپوزیشن کا کچھ بھی اسٹیک پر نہیں رہ جائے گا اور ایوان کی کارکردگی جو پہلے بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے مزید خراب ہو جائے گی جو جمہوریت کے لئے کچھ اچھا شگون نہیں ہو گا اور غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ اور اب بھی اس کی ترجیح کرپشن کے خلاف کارروائی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا زیادہ تر ہدف پاکستان مسلم لیگ نون رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں تضاد نظر آتا ہے کہ ایک جانب تو نیب شہباز شریف کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ ریفرنس دائر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری جانب وہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اس لیے بھی حکومت کو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی محاورے کے مطابق اب Good cop and Bad cop جیسی صورت حال بن گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر بقول ان کے بھرپور انداز میں اس فیصلے کے ساتھ ہیں اور ان سے یہ بیان بھی منسوب کیا گیا ہے کہ اگر پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد لایا جاتا ہے تو وہ مستعفی ہو جایئں گے۔
دوسری جانب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ بنایا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فی الحال شہباز شریف اپنی جگہ رہیں گے اور حکومت یہ تاثر دیتی رہے گی کہ اس نے انتہائی مجبوری میں جمہوریت کے مفاد میں اس فیصلے کو قبول کیا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5