پولینڈ: ہولوکاسٹ سے متعلق مجوزہ قانون پر اسرائیل کی تنقید

پولینڈ میں آشوٹز کا بدنامِ زمانہ ڈیتھ کیمپ جہاں نازیوں کے دور میں ہزاروں یہودیوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

اتوار کو کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حقائق کو مسخ کرنے، تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور ہولو کاسٹ کو جھٹلانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پولینڈ میں کی جانے والی اس مجوزہ قانون سازی پر کڑی تنقید کی ہے جس کے تحت 'ہولوکاسٹ' کو پولینڈ کے کھاتے میں ڈالنے والوں کو سزائیں دی جاسکیں گی۔

اتوار کو کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حقائق کو مسخ کرنے، تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور ہولو کاسٹ کو جھٹلانے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا۔

مجوزہ قانون میں جرمنی کی نازی حکومت کی جانب سے یہودیوں کے قتلِ عام (ہولوکاسٹ) کو پولینڈ کا جرم اور نازیوں کی جانب سے قائم کیے جانے والے ڈیتھ کیمپوں کو پولینڈ کے کیمپ قرار دینے والوں کے لیے جرمانے اور قید کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

مجوزہ قانون پر اسرائیل کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ اتوار کو اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے تل ابیب میں تعینات پولینڈ کو سفیر کو طلب کرکے معاملے پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔

اسرائیل کے 'یاد وشیم ہولو کاسٹ میموریل' کی انتظامیہ نے بھی مجوزہ قانون کو تاریخی حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش قرار دیا ہے۔

میموریل انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران پولینڈ کی سرزمین پر روا رکھے جانے والے مظالم پر پولینڈ کے رہائشیوں کی رضامندی یا خاموشی پر دانشوروں اور اور دیگر افراد کے بیانات دینے پر پابندی حقائق مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

بعض ماہرین کو خدشہ ہے کہ مجوزہ قانون ہولو کاسٹ جھیلنے والوں یا ان کے وارثین کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اسرائیل کے سخت احتجاج کے بعد اتوار کو پولینڈ کے صدر آندریج ڈوڈا نے معاملے کی حساسیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پولینڈ کی سینیٹ نے مجوزہ قانون کی منظوری دی تو وہ اس پر دستخط سے قبل پوری باریک بینی سے اس کا جائزہ لیں گے۔

سنہ 1939 میں نازی جرمنی کے حملے سے قبل پولینڈ کی یہودی آبادی کا شمار دنیا کے خوش حال ترین یہودیوں میں ہوتا تھا۔

تاہم اس حملے کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک نازی فوجوں نے پولینڈ میں قائم کیے جانے والے ڈیتھ کیمپوں میں بعض دعووں کے مطابق 30 لاکھ یہودی مار ڈالے تھے۔

بعض تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد پولینڈ لوٹنے والے باقی ماندہ یہودیوں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہ یہودیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم میں بھی پولینڈ کے کئی مقامی باشندوں نے نازی حکام کا ساتھ دیا تھا۔

لیکن پولینڈ کی حکومت اور دانشوروں کا موقف رہا ہے کہ وہ نازی جبر کے سامنے مجبور تھے اور خود پولش عوام نے بھی نازیوں کے ہاتھوں مظالم برداشت کیے تھے لہذا انہیں ہولوکاسٹ جیسے جرائم کا الزام نہیں دینا چاہیے۔