خیبر پختونخوا میں جاری انسدادِ پولیو مہم کے دوران رضا کاروں پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا ہے۔
پولیو ورکرز پر حملے کا حالیہ واقعہ منگل کی صبح ضلع کوہاٹ میں پیش آیا۔ پولیس حکام کے مطابق نامعلوم حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔پولیس نے نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
انسدادِ پولیو کی ٹیم پر اس حملے کی ذمے داری تاحال کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی ۔ البتہ پولیس حکام نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے انسدادِ پولیو ٹیم پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ نے پولیس کو واقعے میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے ضروری کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ٹیم پر حملہ کرنے والے ہمارے بچوں کے محفوظ مستقبل کے دشمن ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم میں شامل رضاکاروں پر یہ پہلا حملہ نہیں۔ بلکہ پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکار اکثر شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں انسدادِ پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے حملوں میں 11 پولیس اہلکار ہلاک اور چھ افراد زخمی ہوئے جس میں پولیو ورکر بھی شامل تھے۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ انسدادِ پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے حملوں میں شدّت پسند عناصر ملوث رہے ہیں جو ایسی کارروائیوں سے افراتفری اور لوگوں کو ہراساں کرنا چاہتے ہیں۔
اختر علی شاہ نے ان حملوں کو باعثِ تشویش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب حکومت ملک سے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، بعض عناصر اس مہم میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں ہونے والے تازہ حملے کے بعد حکام نے انسدادِ پولیو مہم میں شامل رضاکاروں اور صحتِ عامہ کے اہلکاروں کے حفاظتی انتظامات مزید مؤثر بنانے کا اعلان کیا ہے۔
انسدادِ پولیو مہم کے ہنگامی مرکز کے ترجمان ایمل ریاض خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی رواں سال کی پہلی مہم کا آغاز گزشتہ ہفتے ہوا ہے۔
"مہم کے پہلے مرحلے میں صوبے کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔ پیر سے مہم کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے جس میں پشاور اور کوہاٹ سمیت 19 اضلاع میں 34 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی۔"
ترجمان کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ ایک کیس سامنے آیا تھا البتہ اس کے بعد ملک بھر میں پولیو کا کوئی مثبت کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ ایک سال میں پولیو کا صرف ایک کیس آنا ایک حوصلہ افزا بات ہے اور توقع ہے کہ دنیا بھر کی طرح جلد پاکستان سے بھی پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے۔ اسی لیے پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت کرنے والے افراد کے لیے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینا لازمی ہے۔