شمالی و جنوبی وزیرستان میں مہم پر طالبان کی پابندی کے بعد جولائی سے اب تک ان علاقوں میں دو لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں انسداد پولیو کی حالیہ قومی مہم کے دوران بارہ لاکھ سے زائد بچے اس مہلک بیماری سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں، جس پر بین الاقوامی ماہرین نے’’سخت تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
ملک میں گزشتہ سال پولیو وائرس سے 198 بچے متاثر ہوئے تھے، مگر رواں سال اب تک محض 45 بچوں میں اس کی تصدیق ہوئی ہے جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
عالمی تنظیم کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ان ’’شاندار نتائج‘‘ کے پیش نظر بظاہر پاکستان میں پولیو وائرس کی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کو قطرے پلانے کی ان کوششوں کو مزید موثر بنا کر یہ مقصد جلد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
لیکن جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کی سرکاری مہم پر طالبان شدت پسندوں کا پابندی لگانے کا اعلان، کراچی اور کوئٹہ میں مہم سے منسلک مقامی و غیر ملکی افسران پر مہلک حملے اور پندرہ اکتوبر کو چلائی جانے والی تین روزہ قومی مہم میں لاکھوں بچوں کے پولیو کے قطروں سے محروم رہ جانے کی اطلاعات نے انسان کو معذور کر دینے والی اس بیماری کے خلاف حالیہ کامیابیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں رابطہ کار ڈاکٹر الیاس دُری نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حالیہ مہم کے دوران ملک بھر میں جن دس لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے وہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سرکاری ٹیمیں باآسانی پہنچ سکتی ہیں۔
’’ان میں اکثریت ایسے بچوں کی ہے جنہیں پولیو ٹیمیں تلاش کرنے میں ناکام رہیں یا پھر رضا کاروں نے خود جا کر ان بچوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ محکمہ صحت پر لازم ہے کہ وہ اپنی ٹیمیں واپس بھیج کر ان بچوں کو قطرے پلائیں ورنہ وہ پولیو وائرس پھیلانے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔‘‘
فاٹا کے سیکرٹری برائے سوشل سیکٹر ڈاکٹر آفتاب اکبر درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جولائی میں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں طالبان کی طرف سے پولیو مہم پر پابندی کے بعد سے اب تک وہاں پر مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
’’سیاسی انتظامیہ، سول سوسائٹی، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاکہ اُنھیں پولیو مہم پر پابندی ختم کرنے کے لیے راضی کیا جاسکے اور ہمیں اُمید ہے کہ یہ پابندی اُٹھالی جائے گی۔‘‘
رواں ہفتے کوئٹہ کے مضافات میں ایک پولیو ٹیم پر حملے میں محکمہ صحت کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔
جولائی میں کراچی میں دو الگ الگ حملوں میں ڈبلیو ایچ او سے منسلک ایک پاکستانی ڈاکٹر ہلاک جبکہ گھانا سے تعلق رکھنے والی تنظیم کا ایک ڈاکٹر اور اُن کا ڈرائیور زخمی ہو گئے تھے۔
ملک میں گزشتہ سال پولیو وائرس سے 198 بچے متاثر ہوئے تھے، مگر رواں سال اب تک محض 45 بچوں میں اس کی تصدیق ہوئی ہے جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
عالمی تنظیم کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ان ’’شاندار نتائج‘‘ کے پیش نظر بظاہر پاکستان میں پولیو وائرس کی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کو قطرے پلانے کی ان کوششوں کو مزید موثر بنا کر یہ مقصد جلد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں رابطہ کار ڈاکٹر الیاس دُری نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حالیہ مہم کے دوران ملک بھر میں جن دس لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے وہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سرکاری ٹیمیں باآسانی پہنچ سکتی ہیں۔
’’ان میں اکثریت ایسے بچوں کی ہے جنہیں پولیو ٹیمیں تلاش کرنے میں ناکام رہیں یا پھر رضا کاروں نے خود جا کر ان بچوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ محکمہ صحت پر لازم ہے کہ وہ اپنی ٹیمیں واپس بھیج کر ان بچوں کو قطرے پلائیں ورنہ وہ پولیو وائرس پھیلانے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔‘‘
فاٹا کے سیکرٹری برائے سوشل سیکٹر ڈاکٹر آفتاب اکبر درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جولائی میں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں طالبان کی طرف سے پولیو مہم پر پابندی کے بعد سے اب تک وہاں پر مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
’’سیاسی انتظامیہ، سول سوسائٹی، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاکہ اُنھیں پولیو مہم پر پابندی ختم کرنے کے لیے راضی کیا جاسکے اور ہمیں اُمید ہے کہ یہ پابندی اُٹھالی جائے گی۔‘‘
رواں ہفتے کوئٹہ کے مضافات میں ایک پولیو ٹیم پر حملے میں محکمہ صحت کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔
جولائی میں کراچی میں دو الگ الگ حملوں میں ڈبلیو ایچ او سے منسلک ایک پاکستانی ڈاکٹر ہلاک جبکہ گھانا سے تعلق رکھنے والی تنظیم کا ایک ڈاکٹر اور اُن کا ڈرائیور زخمی ہو گئے تھے۔