|
پاکستان کے 30 اضلاع سے جمع کیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں پولیو کیسز میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
یہ خبر پولیو کے شکار مصل خان کے لیے بھی تشویش کا باعث بنی ہے جن کی زندگی ویل چیئر کے بغیر اُدھوری ہے۔
مصل خان ویل چیئر ٹیم میں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں، تاہم وہ نہیں چاہتے کہ کسی اور کو بھی اس اذیت سے گزرنا پڑے جس سے وہ دوچار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مصل خان کا کہنا تھا کہ وہ صرف دو برس کے تھے جب وہ پولیو کا شکار ہوئے۔
اُن کے بقول "میرے والد نے مجھے پولیو کے قطرے نہیں پلائے تھے، اسی وجہ سے پولیو ہوا اور اب ساری زندگی کے لیے ویل چیئر پر بیٹھنا پڑ رہا ہے۔"
مصل خان کے بقول وہ تمام والدین سے درخواست کرتے ہیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں اور اُنہیں عمر بھر کی معذوری سے بچائیں۔
مصل خان کے والد اول خان کا کہنا تھا کہ وہ مصل کی بیماری کا ذمے دار خود کو سمجھتے ہیں۔ لہذٰا سب والدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے گریز نہ کریں۔
پولیو کیا ہے؟
پولیو ایک انتہائی تیزی سے وائرس کی طرح پھیلنے والی بیماری ہے جو عام طور پر پانچ سال تک کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ پولیو کا وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے اور یہ پاخانے اور منہ کے راستے بھی پھیلتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس انسانی آنتوں میں پھلنا پھولنا شروع کر دیتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر فالج کا باعث بنتا ہے۔
پولیو کی ابتدائی علامات
پولیو کی ابتدائی طور پر ظاہر ہونے والی علامات میں بخار، شدید تھکاوٹ، سر درد، متلی یا قے اور گردن کا اکڑ جانا شامل ہیں۔
چند کیسز میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیو وائرس اعصابی نظام پر حملہ کر کے فالج کی وجہ بنتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق پولیو ہو جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں، صرف پیشگی احتیاط سے ہی بچاؤ ممکن ہے۔ اسی لیے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔
ماہرینِ صحت کہتے ہیں کہ پولیو وائرس ماحولیاتی نمونوں میں پایا جاتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب بھی یہ وائرس پاکستان میں موجود ہے۔
پاکستان کے کون سے شہر پولیو کے خطرے سے دوچار ہیں؟
کراچی، کوئٹہ اور پشاور ان شہروں میں سرِ فہرست ہیں جہاں سے حاصل کردہ نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔ کراچی سے 34، کوئٹہ سے 12 جب کہ پشاور سے لیے گئے 24 نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔
کوآرڈینیٹر قومی ایمرجینسی آپریشنز سینٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ کہتے ہیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی تقریباً 45 ہزار ایسے لوگ ہیں جو بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد بیگ کے مطابق پاکستان میں پایا جانے والا پولیو وائرس کا ویریئنٹ ’وائے بی تھری سی‘ اکتوبر کے بعد سے رپورٹ نہیں ہوا لیکن افغانستان میں موجود ویریئنٹ کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
پاکستان پولیو سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہا ہے؟
ڈاکٹر شہزاد بیگ کہتے ہیں پاکستان کا مشن ہے کہ بیرونِ ملک بالخصوص افغانستان سے آنے والے پولیو وائرس کے ویریئنٹ کو 30 دسمبر 2024 تک ختم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال آٹھ پولیو مہم چلائی جائیں گی۔ اب تک دو پولیو کیسز چمن اور ڈیرہ بگٹی سے سامنے آئے ہیں جب کہ 30 اضلاع سے 83 سے زائد نمونے پازیٹو آئے ہیں یعنی ان میں وائرس پایا گیا۔
ڈاکٹر شہزاد بیگ کے بقول اگر کسی علاقے سے نمونے مثبت آ جائیں ہیں تو وہاں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے والا بچہ بھی اتنا ہی رسک پر ہوتا ہے جتنا قطرے نہ پینے والا بچہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاسیٴ آب کا مناسب بندوبست موجود نہیں۔ لائنیں خراب ہونے کی وجہ سے اکثر سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں مل جاتا ہے جس کے ذریعے پولیو انسانی جسم میں داخل ہو کر نقصان پہنچا سکتا ہے۔