عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان پولیو وائرس کے خلاف مہم میں ناکام ہوا تو بچوں کو معذور کرنے والی اس بیماری کے خلاف بین الاقوامی کوششیں اور سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر الیاس درے کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے لیے یہ امر باعث تشویش ہے کہ خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان کے بعض حصوں میں اڑھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہاں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے ہیں۔
’’انھی علاقوں میں سب سے زیادہ پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں اور پولیو کے خلاف مہم میں ان کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ پورے ایشیا میں یہ ہی وہ علاقے ہیں جہاں پی تھری نامی پولیو وائرس نشو و نما پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس نائیجریا کے کچھ حصوں اور مغربی افریقہ میں بھی موجود ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ سب سے زیادہ توجہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ پر دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہاں سے آبادی کی نقل مکانی سے پی تھری وائرس کی ملک کے دیگر حصوں میں منتقلی کا خطرہ ہے۔
ڈاکٹر درے نے بتایا کہ محکمہ صحت کے حکام کے ساتھ مل کر ڈبلیو ایچ او نقل مکانی کرنے والوں ان خاندانوں کا تو احاطہ کر رہا ہے جو کیمپوں میں مقیم ہیں لیکن ان میں سے کئی خاندان شہری علاقوں کا رخ کر کے وہاں مقامی آبادی کے ساتھ مل کر رہنا شروع کر دیتے ہیں جن کے بچوں تک رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’’اگر پاکستان پولیو کے خاتمے میں ناکام ہوتا ہے تو اس وائرس کے خلاف عالمی مہم خطرے میں پڑ جائے گی اور وہ تمام کوششیں ضائع ہو جائیں گی جو حکومتیں، رضا کار اور شعبہ صحت سے منسلک کارکن کر رہے ہیں‘‘۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں انسداد پولیو کی سرکاری کوششوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے اور اس کا محور زیادہ تر صوبہ خیبر پختون خواہ خاص طور پر شورش زدہ قبائلی علاقے ہیں جہاں پر حال ہی میں پولیو وائرس کی خطرناک قسم ’پی تھری‘ کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او سے منسلک ڈاکٹر سرفراز خان آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 2011ء سے قبل عالمی سطح پر یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ اس خطے میں پولیو پی تھری وائرس کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ہے لیکن خیبر ایجنسی میں اس وائرس سے گزشتہ سال دو بچے متاثرہ ہوئے جو بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
’’یہ (پی تھری) وائرس پی ون کی نسبت زیادہ بچوں کو ’اپاہج‘ کرتا ہے۔ پی ون تھوڑا بھی خطرناک ہے لیکن وہ چھپا ہوا نہیں ہوتا اس لیے ہم اس کو آسانی سے شناخت کر سکتے ہیں، لیکن پی تھری چھپ کر وار کرتا ہے اور مریض کے ٹیسٹ سی ہی پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں یہ وائرس موجود ہے‘‘۔
انسداد پولیو کے قومی پروگرام کے سربراہ الطاف بوسن نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں پر حالیہ دنوں میں خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جس میں داخلی اور خارجی راستوں پر پولیو کے قطرے پلانے کے مراکز کا قیام شامل ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پولیو کے خلاف بین الاقوامی مہم پر اب تک بارہ ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جبکہ اس مہم سے دنیا بھر میں دو کروڑ افراد منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان انسداد پولیو کی مہم میں ناکام ہوتا ہے تو نہ صرف یہ تمام سرمایہ کاری رائیگاں جائے گی بلکہ دنیا بھر میں دو لاکھ سے زائد بچوں کا پولیو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار یہ انتباہ بھی کر چکے ہیں کہ پولیو وائرس کی مسلسل موجودگی سے پاکستانی شہریوں کو ویزوں اور بین الاقومی سفر پر مخصوص تعزیرات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔