پاکستان: پولیو کے خلاف جنگ لڑتے رضاکار اور ان کے مسائل

’کئی گھروں سے ہمیں دھتکار کر بھگا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کئی بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں جسکی وجہ ان کے اپنے والدین ہیں‘، پولیو رضاکار کی وائس آف امریکہ سے گفتگو۔
پاکستان کو پولیو فری ملک قرار دینے کے لیے جہاں عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کوشاں ہیں وہیں اس 'لاعلاج' مرض پولیو کیخلاف جنگ میں پولیورضاکاروں کا جذبہ بھی پیش پیش ہے۔

پاکستان میں پولیو رضاکاروں کو انسداد ِپولیو مہم کے دوران 5 سال تک کے بچوں کو گھر گھر قطرے پلانے کےعوض صرف 250 روپے اجرت ملتی ہے۔ پاکستان کے اہم شہر کراچی میں 2012 میں پولیو رضاکاروں کے قتل کے واقعے کے بعد پولیو رضاکار سیکیورٹی مل جانے کے باوجود حساس علاقوں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

گزشتہ سال کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاون، بن قاسم اور اورنگی ٹاون میں نشانہ بنایا گیا۔ گڈاپ ٹاون کی پولیو رضاکار فرزانہ نامی خاتون وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتی ہیں کہ، ’ہمیں سیکیورٹی تو فراہم کی گئی ہے مگر ہمارے ساتھی ورکرز آج بھی خطرہ محسوس کرتی ہیں کہ کہیں پچھلےسال جیسا واقعہ پھر رونما نہ ہوجائے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ پولیو رضاکاروں کا حوصلہ مضبوط ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’گولی لگ جائے کوئی پرواہ نہیں مگر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے رہیں گے‘
۔ فرزانہ بلوچ مزید بتاتی ہیں کہ انسداد پولیو مہم کے حوالے سے شہریوں میں آگاہی بڑھ رہی ہے
مگر آج بھی کئی خاندان ایسے ہیں جو پولیو مہم کو برا سمجھتے ہیں اور پولیو سے بچاو کے قطرے پلوانے سے انکار کردیتے ہیں۔

’کئی گھرانوں سے ہمیں دھتکار کر بھگا دیاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کئی بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں۔جسکی اہم وجہ ان کے اپنے والدین ہیں۔


کراچی کی ہی ایک اور پولیو رضاکار نسیمہ وائس آف امریکہ کو بتاتی ہیں کہ، ’ہم پولیو رضاکاروں کو شہر میں جاری دہشتگردی کے واقعات کا بھی سامنا رہتا ہے۔‘


پولیو رضاکار ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں کہ کہیں کوئی گھر سے کوئی بچہ پولیو کے قطروں سے محروم نہ رہ جائے۔‘


نسیم کا کہنا ہے کہ، ’پولیو رضاکاروں میں خواتین ورکرز کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال پولیو رضاکاروں کی اجرت کو 250 روپے سے بڑھاکر 500 روپے کرنے کا اعلان تو کیاگیاتھا مگر اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔‘

پاکستان میں رواں سال 40 پولیو کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سندھ سے 3 پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان کیسز میں سے2 کا تعلق کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاون اور بن قاسم سے ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں 1994 سے جاری انسداد پولیو مہم مسلسل جاری رہنے کے باوجود پاکستان کو اب تک ’پولیو فری‘ ملک قرارنہیں دیا جا سکا ہے۔