بلوچستان میں سیاسی بحران، وزیرِاعلیٰ تنقید کا ہدف

بلوچستان میں جاری سیاسی گرما گرمی سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صوبے کے حالات کی ذمہ داری رئیسانی حکومت کے سر ڈال کر اسے رخصت کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اسلم بھوتانی کی جانب سے وزیرِاعلیٰ اسلم رئیسانی کی درخواست پر طلب کیے جانے والے اسمبلی اجلاس کی صدارت سے انکار کے بعد بلوچستان میں جاری سیاسی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔

ادھر صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹَی کے مقامی رہنمائوں اور وزیرِاعلیٰ اسلم رئیسانی کے درمیان جاری چپقلش بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے جس کے بعد صوبے میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے جاری قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ اسلم رئیسانی ان دِنوں - اپنے اور پرائے، دونوں ہی کی - کڑی تنقید کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ایک جانب سپریم کورٹ ان کی حکومت پر برس رہی ہے تو دوسری جانب ان کی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنمائوں نے ذرائع ابلاغ میں ان کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بلوچستان بد امنی کیس میں 12 اکتوبر کو جاری کیے جانے والے اپنے عبوری حکم میں قرار دیا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت بلوچستان حکومت کی آئنی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں وہ ناکام ہوگئی ہے اور اپنا حقِ حکمرانی کھو چکی ہے۔

عدالت کے عبوری فیصلے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت کی برطرفی اور بلوچستان میں نئی حکومت کے قیام یا گورنر راج کے نفاذ کے مطالبات سامنے آئے تھے تاہم وفاقی حکومت نے اس ضمن میں کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔

عداتِ عظمیٰ کے عبوری فیصلے کے بعد سے پیپلز پارٹی بلوچستان کے صوبائی صدر اور نواب رئیسانی کی حکومت میں وزیر کا عہدہ رکھنے والے صادق عمرانی اور پارٹی کے دیگر صوبائی عہدیداران تسلسل سے مختلف فورمز اور ذرائع ابلاغ پر وزیرِاعلیٰ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔

گزشتہ روز بلوچستان بدامنی کیس کی دوبارہ سماعت کے دوران میں عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے صوبائی حکومت کے خلاف ایک بار پھر سخت ریمارکس دیے جانے کے بعد صوبائی حکومت پر کیے جانے والے زبانی حملوں میں تیزی آگئی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں کسی سیاسی تبدیلی کے لیے ماحول سازگار کیا جارہا ہے۔

جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے دوران میں عدالتِ عظمیٰ نے عبوری حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بلوچستان حکومت کے پاس صوبے پر حکمرانی کا کوئی جواز نہیں رہا کیوں کہ وہ آئین کے نفاذ میں ناکام ہوچکی ہے۔ عدالت نے صوبائی حکومت کے فنڈز روکنے کی بھی ہدایت کی۔


وزیرِاعلیٰ کے خلاف پی پی رہنمائوں کی مہم

گزشتہ روز کے عدالتی ریمارکس کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اسلم بھوتانی نے وزیرِاعلیٰ اسلم رئیسانی کی درخواست پر صوبائی اسمبلی کے 9 نومبر کو بلائے گئے اجلاس کی صدارت سے انکار کردیا ہے۔

صوبائی حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ہم خیال) سے تعلق رکھنے والے اسپیکر بھوتانی نے موقف اختیار کیا ہے کہ بلوچستان حکومت کی قانونی حیثیت کے تعین تک صوبائی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جاسکتا اور عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا توہینِ عدالت ہے۔

ادھر پیپلز پارٹی قلات ڈویژن نے پارٹی پالیسی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں وزیرِاعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی پارٹی رکنیت تین ماہ کے لیے معطل کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔

پارٹی کے ڈویژنل صدر رفیق سجاد نے جمعرات کو مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ وزیرِاعلیٰ بلوچستان گزشتہ چار برسوں سے مسلسل پارٹی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور انہیں اس سے قبل بھی دو بار اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔

رفیق سجاد نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ کی پارٹی رکنیت کی معطلی کا فیصلہ پی پی پی کے صوبائی صدر صادق عمرانی سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔

ادھر صادق عمرانی نے جمعرات کو کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ صوبے میں ڈاکٹروں کے اغوا برائے تاوان میں وزیرِاعلیٰ اسلم رئیسانی ملوث ہیں۔


کیا صوبے میں سیاسی تبدیلی کا فیصلہ ہوچکا؟

پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے اپنی ہی حکومت کے خلاف جاری اس زبانی مہم سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی ذمہ داری رئیسانی حکومت کے سر ڈال کر اسے رخصت کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عام انتخابات سے قبل صوبے میں سیاسی تبدیلی پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے حق میں ہوگی کیوں کہ اس طرح وہ پچھلے ساڑھے چار برسوں کی کارکردگی سے لاتعلقی ظاہر کرکے خود کو ایک بار پھر انتخاب کےلیے صوبے کے عوام کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔

صوبے میں جاری اس بحران پر پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور وفاقی حکومت کی خاموشی بھی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے جنہوں نے تاحال صوبائی رہنمائوں کے مابین جاری اس محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔

ادھر اپنوں کی اس مخالفت کے باوجود وزیرِاعلیٰ بلوچستان ہار ماننے کو تیار نہیں اور انہوں نے جمعے کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کا اعلان کیا ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلم رئیسانی نے دعویٰ کیا کہ انہیں اسمبلی کے 65 میں سے 62 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے اسپیکر اسلم بھوتانی پر بھی تنقید کرتے ہوئے انہیں "میر صادق" اور "میر جعفر" سے تشبیہ دی۔

انہوں نے کہا کہ وہ جمعے کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ بلوچستان بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر عدالت کو اپنے موقف سے آگاہ کریں گے۔ نواب رئیسانی نے اپنی پارٹی رکنیت کی معطلی کی بھی تردید کی اور کہا کہ انہیں کوئی معطل نہیں کرسکتا۔