وفاق میں سیاسی بحران، مگر خیبر پختونخوا میں پر اسرار خاموشی

قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد مسترد کیے جانے کے بعد سے ملک بھر میں جاری سیاسی بحران اور محاذ آرائی سے خیبر پختونخوا کسی حد تک محفوظ دکھائی دیتا ہے ۔

حزب اختلاف میں شامل جماعتوں کے ممبران اسمبلی اور عہدے دار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ان کی مستقبل کی حکمت عملی کا انحصار ڈپٹی اسپیکر کی تین اپریل کی رولنگ کے خلاف سو موٹو نوٹس کے فیصلے پر ہے۔ تاہم اس بحرانی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعلی محمود خان اور ان کی کابینہ میں شامل زیادہ تر وزرا نے مستقبل میں نئے انتخابات کے سلسلے میں اپنی تیاریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

موجودہ صورت حال میں تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کے عہدے دار روزانہ اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی یا فلاحی منصوبے پر کام شروع کرنے یا ان میں تیزی لانے کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعلی ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے متحرک

سرکاری طور پر جاری کردہ بیانات کے مطابق خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان نےگزشتہ تین دنوں کے دوران مختلف اجلاسوں میں نیو پشاور ویلی ہاؤسنگ اسکیم، سوات موٹروے فیز ٹو اور دیگر کثیر المقاصد ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کرنے کے لیے اعلٰی سطحی اجلاسوں کی صدارت کی اور ان منصوبوں پرجلد عمل درآمد کی ہدایت بھی کی۔

مجوزہ منصوبوں میں سے سوات موٹروے فیز ٹو تنازعات کا شکار ہے کیونکہ مقامی آبادی اس کے لیے اپنی زرعی اراضی دینے پر تیار نہیں ہے۔ سوات کی سول سوسائٹی، زمیندار اور سیاسی رہنما اس موٹروے کو زرعی اراضی سے گزارنے کے بجائے دریائے سوات کے کناروں پر تعمیر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

فائل فوٹو۔

بڑا مظاہر ہ نہیں ہوسکا

خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور اس صوبے سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی میں بھی اسے اکثریت حاصل ہے۔ لیکن وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی مبینہ سازش کے خلاف احتجاج کی کال کے باجود صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے کسی بھی شہر یا قصبے میں جماعت کا کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات ظاہر شاہ طورو اس احتجاجی تحریک کے لیے متحرک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رمضان کی وجہ سے لوگ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ نہیں لے رہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی حد تک پارٹی متحد ہے مگر اندرونی طور پر پارٹی میں گروپ بندی موجود ہے ۔حزب مخالف کی جماعتیں اس گروپ بندی سے بھی فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔

رکنِ صوبائی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات ظاہر شاہ طورو کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں پارٹی متحد ہے اور وزیرِاعظم عمران خان کی قیادت میں آئندہ انتخابات میں 2018 سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔

انہوں نےکہا کہ وزیراعلٰی محمود خان کی حکومت بھی بہت مضبوط ہے اور اس کے خلاف منقسم حزب اختلاف کسی بھی صورت تحریکِ عدم اعتماد نہیں لا سکے گی۔

SEE ALSO: خاتونِ اول کی سہیلی فرح خان پر کرپشن کے الزامات، معاملہ ہے کیا؟


پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات اور ممبر صوبائی اسمبلی امجد آفریدی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کا مستقبل قومی اسمبلی کے مستقبل سے منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں حکمران جماعت اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور اس میں کئی گروپ موجود ہیں ۔ وفاق میں معاملات سامنے آنے کے بعد حزبِ اختلاف میں شامل جماعتیں باہمی مشاورت سے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گی۔

’وزیرِ اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں‘

پشاور کے سینئر صحافی ارشد عزیز ملک نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ محمود خان صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی بھی یہی کوشش ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتوں کی موجودگی میں نئے انتخابات کرائیں جائیں ۔ لیکن حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے لہذا ان حالات میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل خارج از امکان نہیں ہے۔

ارشد عزیز ملک کا کہنا ہے کہ مستقبل کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف 2018 کی طرح زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اس کے لیے حالات ساز گار نظر آتے ہیں۔