گھمبیر معاشی مسائل سے دوچار شخص کی ذہانت کمتر سطح پر پہنچ جاتی ہے جس کےآئی کیو ٹیسٹ (ذہانت جانچنے کا امتحان) کے اسکور میں 13 پوائنٹ کی کمی واقع ہوتی ہے۔
لندن —
ایک نئی تحقیق کہتی ہے کہ کسی شخص کی معاشی پریشانیاں نہ صرف اسے بنک بیلنس سے محروم کر کے مفلس بنا دیتی ہے بلکہ دماغی طور پر بھی کنگال کر دیتی ہے یعنی پیسوں کی تنگی ذہانت اور قوت فیصلہ کو محدود بنا دیتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ، عقل پر تالے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں ۔
امریکی اور برطانوی 'یونیورسٹی وارک 'کےسائنسدانوں کی مشترکہ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ، معاشی رنج و الم ہمارے دماغ سے ایک طرح کا محصول وصول کرتے ہیں جس کی ادائیگی دماغ کوعقل وشعور کے خسارے میں مبتلا ہو کر کرنی پڑتی ہے ۔
تحقیقی جائزے میں ثابت کیا گیا ہےکہ، گھمبیر معاشی مسائل سے دوچار شخص کی ذہانت کمتر سطح پر پہنچ جاتی ہے جس کےآئی کیو ٹیسٹ (ذہانت جانچنے کا امتحان) کے اسکور میں 13 پوائنٹ کی کمی واقع ہوتی ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ، جیسے ہی کوئی شخص ان حالات پر قابو پا لیتا ہے یا اسے کچھ راحت نصیب ہوتی ہے اس کا آئی کیو لیول واپس اپنے اصل درجے پر پہنچ جاتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق، ایک غریب انسان قلیل آمدنی میں روزہ مرہ اخراجات پورے کرنے کی فکر میں ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو کر دوسروں کی نسبت زیادہ دماغی توانائی خارج کرتا ہے لہذا اس کے پاس زندگی کے دوسرے غور طلب مسائل سے نمٹنے کے لیے محدود دماغ بچتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں دانشمندانہ فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ہےیہی وجہ ہے کہ، نتیجہ مزید خسارے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اکثرمعاشی مصائب کا حل ڈھونڈنے کی کوششیں مزید معاشی پریشانیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں مثلا ایک قرض سے جان چھوڑانے کے لیے مزید قرضے لینا اور پھرآہستہ آہستہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جانا شامل ہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر معاشیات سینڈیہل مولینیتھن کہتے ہیں کہ ، ''جائزے سے حاصل ہونے والا نتیجہ بڑا واضح ہے کہ ، انسان جب غریب ہوتا ہے تو پیسہ ہی واحد چیز نہیں ہوتا ہے جو کم پڑتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دماغ کا وہ حصہ جو عقل مندی سے جڑا ہے اس کی کارکردگی بھی محدود ہو جاتی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ،'' جائزے کے نتیجے سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ ، غریب انسان بےعقل یا کم فہم ہوتا ہے بلکہ یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ ، جب وہی شخص نسبتا بہتر حالات میں ہوتا ہے تو اس کی قوت فیصلہ یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔''
ان کے الفاظ میں ، '' نتیجے سے یہ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ، کسی انسان کی کم عقلی ہی دراصل اس کی غربت کی اصل وجہ ہوتی ہےبلکہ ہماری تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ، سوچ اور تفکرات میں گھرے ہوئے دماغ کی ذہانت اور غور وخوض کرنے کی صلاحیت زیادہ فعال نہیں رہتی ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ ، جیسے ایک کمپیوٹر پر ایک ہی وقت میں کئی کام لئے جائیں تو اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اسی طرح معاشی پریشانیوں کا بوجھ دماغی افادیت کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔''
پروفیسر سینڈ یہل نےامریکہ اور انڈیا میں' غربت کی وجہ سے دماغ کو کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ' کے عنوان سے سلسلہ وار تجربات کئے ۔ سب سے پہلے نیو جرسی شہر کےایک شاپنگ سینٹر سے 400 افراد کو اتفاقیہ طور پر چنا گیا پھر ان کی آمدنی کے حساب سے امیر اور غریب میں درجہ بندی کی گئی جہاں ان سے چند فرضی معاشی مسائل کے حل کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے اور ساتھ ہی انھیں کمپیوٹر پر آئی کیو ٹیسٹ اور مینٹل پر فارمنس کے ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا۔
' جرنل سائنس 'میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جب تک فرضی معاشی مسائل گھمبیر نوعیت کے نہیں تھے دونوں گروپوں کی جانب سے ایک جیسی کار کردگی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب انھیں سنگین اور مہنگے ترین اخراجات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا گیا تو کم آمدنی رکھنے والوں کی ذہانت کا اسکور تیزی سے گرا جس سے ظاہر ہوا کہ غربت کا اثر صحیح سمت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے ۔
دوسرے تجربے کے لیے ماہرین انڈیا کے دیہی علاقے میں گئے جہاں گنے کے کاشتکاروں سے ملے جنھیں سال میں ایک بار محنت کا معاوضہ ملتا تھا ۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ ،جس ماہ انھیں معاوضہ حاصل ہوا ان کا آئی کیو اسکور دس گنا زیادہ رہا نسبتا اس وقت سے جب کہ انھیں پورا سال تنگی میں گزارا کرنا پڑا ۔
تحقیق سے منسلک ماہر نفسیات ایلڈار شاہفر کہتے ہیں کہ ،اگر تم غربت میں رہتے ہو تو زیادہ غلطیاں کرتے ہو اور ان کی دوگنی قیمت ادا کرتے ہو جن سے خود کو نکالنا بے حد مشکل ہوتا ہے نتیجتا چالاکی اور اسمارٹنس جیسی خصوصیت معاشی مسائل کے نیچے دب کر رہ جاتی ہیں ۔
امریکی اور برطانوی 'یونیورسٹی وارک 'کےسائنسدانوں کی مشترکہ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ، معاشی رنج و الم ہمارے دماغ سے ایک طرح کا محصول وصول کرتے ہیں جس کی ادائیگی دماغ کوعقل وشعور کے خسارے میں مبتلا ہو کر کرنی پڑتی ہے ۔
تحقیقی جائزے میں ثابت کیا گیا ہےکہ، گھمبیر معاشی مسائل سے دوچار شخص کی ذہانت کمتر سطح پر پہنچ جاتی ہے جس کےآئی کیو ٹیسٹ (ذہانت جانچنے کا امتحان) کے اسکور میں 13 پوائنٹ کی کمی واقع ہوتی ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ، جیسے ہی کوئی شخص ان حالات پر قابو پا لیتا ہے یا اسے کچھ راحت نصیب ہوتی ہے اس کا آئی کیو لیول واپس اپنے اصل درجے پر پہنچ جاتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق، ایک غریب انسان قلیل آمدنی میں روزہ مرہ اخراجات پورے کرنے کی فکر میں ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو کر دوسروں کی نسبت زیادہ دماغی توانائی خارج کرتا ہے لہذا اس کے پاس زندگی کے دوسرے غور طلب مسائل سے نمٹنے کے لیے محدود دماغ بچتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں دانشمندانہ فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ہےیہی وجہ ہے کہ، نتیجہ مزید خسارے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اکثرمعاشی مصائب کا حل ڈھونڈنے کی کوششیں مزید معاشی پریشانیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں مثلا ایک قرض سے جان چھوڑانے کے لیے مزید قرضے لینا اور پھرآہستہ آہستہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جانا شامل ہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہر معاشیات سینڈیہل مولینیتھن کہتے ہیں کہ ، ''جائزے سے حاصل ہونے والا نتیجہ بڑا واضح ہے کہ ، انسان جب غریب ہوتا ہے تو پیسہ ہی واحد چیز نہیں ہوتا ہے جو کم پڑتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دماغ کا وہ حصہ جو عقل مندی سے جڑا ہے اس کی کارکردگی بھی محدود ہو جاتی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ،'' جائزے کے نتیجے سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ ، غریب انسان بےعقل یا کم فہم ہوتا ہے بلکہ یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ ، جب وہی شخص نسبتا بہتر حالات میں ہوتا ہے تو اس کی قوت فیصلہ یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔''
ان کے الفاظ میں ، '' نتیجے سے یہ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ، کسی انسان کی کم عقلی ہی دراصل اس کی غربت کی اصل وجہ ہوتی ہےبلکہ ہماری تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ، سوچ اور تفکرات میں گھرے ہوئے دماغ کی ذہانت اور غور وخوض کرنے کی صلاحیت زیادہ فعال نہیں رہتی ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ ، جیسے ایک کمپیوٹر پر ایک ہی وقت میں کئی کام لئے جائیں تو اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اسی طرح معاشی پریشانیوں کا بوجھ دماغی افادیت کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔''
پروفیسر سینڈ یہل نےامریکہ اور انڈیا میں' غربت کی وجہ سے دماغ کو کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ' کے عنوان سے سلسلہ وار تجربات کئے ۔ سب سے پہلے نیو جرسی شہر کےایک شاپنگ سینٹر سے 400 افراد کو اتفاقیہ طور پر چنا گیا پھر ان کی آمدنی کے حساب سے امیر اور غریب میں درجہ بندی کی گئی جہاں ان سے چند فرضی معاشی مسائل کے حل کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے اور ساتھ ہی انھیں کمپیوٹر پر آئی کیو ٹیسٹ اور مینٹل پر فارمنس کے ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا۔
' جرنل سائنس 'میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جب تک فرضی معاشی مسائل گھمبیر نوعیت کے نہیں تھے دونوں گروپوں کی جانب سے ایک جیسی کار کردگی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب انھیں سنگین اور مہنگے ترین اخراجات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا گیا تو کم آمدنی رکھنے والوں کی ذہانت کا اسکور تیزی سے گرا جس سے ظاہر ہوا کہ غربت کا اثر صحیح سمت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے ۔
دوسرے تجربے کے لیے ماہرین انڈیا کے دیہی علاقے میں گئے جہاں گنے کے کاشتکاروں سے ملے جنھیں سال میں ایک بار محنت کا معاوضہ ملتا تھا ۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ ،جس ماہ انھیں معاوضہ حاصل ہوا ان کا آئی کیو اسکور دس گنا زیادہ رہا نسبتا اس وقت سے جب کہ انھیں پورا سال تنگی میں گزارا کرنا پڑا ۔
تحقیق سے منسلک ماہر نفسیات ایلڈار شاہفر کہتے ہیں کہ ،اگر تم غربت میں رہتے ہو تو زیادہ غلطیاں کرتے ہو اور ان کی دوگنی قیمت ادا کرتے ہو جن سے خود کو نکالنا بے حد مشکل ہوتا ہے نتیجتا چالاکی اور اسمارٹنس جیسی خصوصیت معاشی مسائل کے نیچے دب کر رہ جاتی ہیں ۔