امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کا ملک پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔
پیر کو جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ان تنظیموں کو پناہ دیتا آیا ہے جو ان کے بقول ہر روز امریکی شہریوں کے قتل کی کوششیں کر رہی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالرز دیتا رہا ہے لیکن اسی دوران پاکستان نے ان دہشت گردوں کو پناہ دیے رکھی جن سے امریکہ لڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ اب فوری طور پر تبدیل کرنا ہوگا کیوں کہ امریکہ کسی ایسے ملک کے ساتھ تعاون جاری نہیں رکھ سکتا جو امریکی شہریوں اور حکام کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی پشت پناہی کرے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے نزدیک واقع فوجی چھاؤنی 'فورٹ مائر' میں پیر کی شب خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان "تہذیب، تمدن اور امن سے اپنی وابستگی کا اظہار کرے۔"
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی امریکی کوششوں سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا لیکن اگر اس نے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھی تو اس کا نقصان بھی سب سے زیادہ اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان امریکہ کا قابلِ قدر شراکت دار رہا ہے اور دونوں ملکوں کی فوج مل کر مشترکہ دشمنوں کے خلاف لڑتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ہیں جن کا امریکہ کو اعتراف ہے۔
افغانستان کے لیے اپنی انتظامیہ کی حکمتِ عملی واضح کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان اور اس کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی خطرات انتہائی سنگین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج افغانستان اور پاکستان میں 20 ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اکثر ایسی تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جو دہشت گردی، تشدد اور افراتفری پھیلاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے مفادات واضح ہیں۔ ہمیں ایسے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے سے روکنا ہو گا جو امریکہ کے لیے خطرہ ہیں۔ اور ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ ایٹمی ہتھیار دہشت گروں کے ہاتھوں تک پہنچنے نہ پائیں، جو ہمارے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔
ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہےجسے ان کے بقول افغانستان کی معیشت، امن اور سیکورٹی میں بہتری لانے کے لیے مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ افغانستان میں اپنی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کی تاریخیں نہیں بتائے گی کہ ہم کب اور کہاں (دہشت گردوں کے خلاف) کارروائی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمتِ عملی کا انحصار زمینی حالات پر ہوگا جن کو دیکھتے ہوئے پالیسی وضع کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اب اپنے فوجی دستوں کی تعداد اور فوجی کارروائیوں کی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا کرے گا تاکہ امریکہ کے دشمن اس کے منصوبوں سے آگاہ نہ ہوسکیں۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے وزیرِ دفاع اور امریکی فوج کے کمانڈروں کو افغان جنگ سے متعلق فیصلوں کا اختیار سونپ دیا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ، واشنگٹن ڈی سی سے نہیں میدانِ جنگ میں ہونے والے فیصلوں سے جیتی جاسکتی ہے۔
ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ امریکہ کی مدد کو 'بلینک چیک' نہیں سمجھنا چاہیے اور افغانستان کی حکومت کو فوجی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔