امریکہ کے 45ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے صدارت کے اُمیدوار ہیں۔
صدر ٹرمپ کا ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں، اندرونی سیاست میں گرما گرمی اور مواخذے کی کارروائی سمیت دیگر اہم واقعات سے عبارت رہا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز گزشتہ برس جون میں 'امریکہ کی عظمت برقرار رکھنے' کے ںعرے کے ساتھ ریاست فلوریڈا سے کیا تھا۔ اس سے قبل 2016 میں اُن کی انتخابی مہم کا نعرہ 'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے' کا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ اپنے حامیوں کو یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو عظیم تر بنانے کا مشن جاری رکھیں گے اور آئندہ چار سال کے دوران اپنا کام ختم کریں گے۔
ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وائٹ ہاؤس تک
صدر بننے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نیویارک میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار اور ٹیلی ویژن شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے اسکول آف وارٹن سے گریجویشن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خاندان کا ریئل اسٹیٹ کا کاروبار سنبھالا۔
ٹرمپ نے اس کاروبار کو وسعت دی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ہوٹلز، کسینو اور گالف کورسز قائم کیے۔ 1990 کی دہائی میں اُنہیں اٹلانٹا اور نیو یارک میں قائم پراپرٹیز کی وجہ سے کاروباری نقصان کا بھی سامنا رہا تاہم اُنہوں نے ازسرِ نو اپنے کاروبار کو مستحکم کیا۔
فاربز میگزین کے مطابق 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ 3.7 ارب ڈالرز کے مالک تھے۔
سن 2004 میں ڈونلڈ ٹرمپ ٹیلی ویژن کی ایک مشہور شخصیت کے طور پر اس وقت سامنے آئے جب اُنہوں نے ریئلٹی شو 'دی اپرینٹس' میں حصہ لینا شروع کیا۔ تاہم 2015 میں صدارتی انتخاب لڑنے کے پیشِ نظر وہ اس شو سے الگ ہو گئے۔
ٹیلی ویژن میں اپنے کریئر کے دوران بھی وہ قومی سیاست میں دلچپسی لیتے رہے۔ سابق صدر براک اوباما کے حوالے سے جب اس تنازع نے جنم لیا کہ وہ امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کی تائید کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کے اہم فیصلے
وائٹ ہاؤس میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور کے دوران صدر ٹرمپ نے ٹیکس اصلاحات سے متعلق اہم بل کی منظوری دی۔ شام میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی جب کہ سپریم کورٹ کے دو قدامت پسند ججز کی سینیٹ سے منظوری کے بعد تعیناتی کو بھی اُن کے دورِ صدارت کے اہم واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے ملک بھر میں وفاقی سطح پر ماتحت عدلیہ میں مزید 200 کے لگ بھگ ججز کی تعیناتی کی بھی منظوری کرائی۔
صدر ٹرمپ کا دورِ صدارت غیر قانونی تارکین وطن کا امریکہ میں داخلہ روکنے کے حوالے سے کیے گئے اقدامات سے عبارت رہا۔
ٹرمپ نے میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے کانگریس سے 1.4 ارب ڈالر منظور کرائے تاہم زیادہ رقم مختص نہ ہونے پر ایمرجنسی لگا کر 3.6 ارب ڈالر کی مزید رقم مختص کی۔
صدر نے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کے تحت سابق صدر براک اوباما کے کئی اقدامات کو رول بیک کیا۔ اُنہوں نے اوباما دور کے صحتِ عامہ کے پروگرام 'اوباما کیئر' کے بڑے حصے کو منسوخ کیا۔
SEE ALSO: ہیلتھ کیئر قانون پر ری پبلکنز کی جزوی کامیابیرواں برس کرونا وبا نے جب امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو لاکھوں امریکی ملازمتوں سے فارغ ہوئے جب کہ کئی کی صحت کی انشورنش بھی ختم ہو گئی۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ 'اوباما کیئر' کو مکمل طور پر کالعدم کر دے۔ صدر ٹرمپ سابق صدر اوباما کی اکثر پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت کے دوران معیشت کی بہتری پر بھی زور دیا اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ اُن کے دور میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح صرف 3.5 فی صد تک رہ گئی تھی جب کہ ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی آئی۔
لیکن 2020 کے اوائل میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کرونا وائرس کی وجہ سے امریکہ سمیت دُنیا کے کئی ملکوں کی معیشت کو جھٹکا لگا۔ ابتدا میں امریکی صدر اس وائرس کو بڑا خطرہ قرار دینے سے گریز کرتے رہے۔ صدر کا اصرار رہا کہ یہ وائرس امریکیوں کو متاثر نہیں کرے گا۔ تاہم جنوری کے آخر میں امریکہ نے وائرس سے بچاؤ کے لیے چین کے ساتھ سفری روابط ختم کر دیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم اندازوں کے برعکس یہ مہلک وائرس امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں پھیل گیا جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔
وائرس کے پھیلاؤ سے امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم صدر ٹرمپ اس وائرس کے حوالے سے روزانہ بریفنگ کے دوران بھی اس کے اثرات میں کمی کے حوالے سے پُرامید رہے۔
وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر جب امریکہ کے طبی ماہرین لوگوں کو ماسک پہننے کا مشورہ دے رہے تھے تو صدر ٹرمپ کا یہ کہنا تھا کہ یہ شہریوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ماسک پہنیں یا نہ پہنیں۔
صدر ٹرمپ خود بھی جولائی تک ماسک پہننے سے گریز کرتے رہے۔
اپریل میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 14.7 فی صد تک پہنچ گئی جو جون میں 50 لاکھوں ملازمتوں کے اضافے کے بعد کم ہو کر 11.1 فی صد رہ گئی تھی۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ 2020 کے آخری چھ ماہ اور 2021 کا آغاز امریکیوں کے لیے مزید بہتری کا پیغام لائے گا۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور مظاہرے
ایک جانب جہاں کرونا وبا کے باعث امریکیوں کی ہلاکت ہو رہی تھی اور معیشت کا پہیہ سست روی کا شکار تھا۔ وہیں مئی میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر نہ صرف امریکہ بلکہ دُنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکہ کے بعض شہروں میں پرتشدد مظاہرے اور لوٹ مار کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
امریکہ میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے سیاہ فام افراد کے ساتھ ناروا سلوک کے الزامات پر 'بلیک لائیو میٹرز' تحریک دوبارہ منظم ہوئی جس کے تحت مظاہرے کئی ماہ تک جاری رہے۔
صدر ٹرمپ کے ان مظاہروں کے ردعمل میں ملے جلے بیانات سامنے آتے رہے۔ صدر پرامن مظاہروں کی حمایت کرتے رہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ 'بلیک لائیو میٹرز' کے نعرے نفرت کو اُبھار رہے ہیں۔
چار جولائی کو امریکہ کے 244ویں یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے نسلی انصاف کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کو انتہائی بائیں بازو کے نمائندوں کا شرانگیز ایجنڈا قرار دیا۔
رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران بدلتے حالات اور واقعات کے باعث صدر ٹرمپ کا سیاسی مستقبل غیر یقینی دکھائی دے رہا تھا۔ بہت سے قومی جائزوں کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے مخالف صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن سے نو فی صد پیچھے تھے۔
صدر ٹرمپ کے حامی یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ 2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل بھی قومی جائزوں میں صدر ٹرمپ پیچھے تھے لیکن وہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لہذٰا اب بھی تاریخ خود کو دہرائے گی۔
یاد رہے کہ امریکہ میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران ایسا صرف دو بار ہوا ہے جب کوئی بھی صدر دوبارہ عہدِ صدارت کے لیے منتخب نہ ہو سکا ہو۔
صدر ٹرمپ کا دورِ صدارت اور خارجہ پالیسی
صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا محور 'امریکہ فرسٹ' یعنی سب سے پہلے امریکہ تھا۔ صدر کا یہ کہنا تھا کہ اُن کے نزدیک امریکہ کا مفاد سب سے پہلے ہے۔
اسی سوچ کے تناظر میں صدر ٹرمپ نے کئی عالمی معاہدوں سے امریکہ کو الگ کیا جن میں ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ معاہدہ، ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرس معاہدہ اور ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والا جوہری معاہدہ بھی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ نے ہمسائیہ ممالک کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ شمالی امریکہ فری ٹریڈ معاہدے کا از سرِ نو جائزہ لینے کے علاوہ چین کے ساتھ تجارتی محاذ بھی کھولا۔
صدر ٹرمپ دیگر ممالک کی سیکیورٹی پر خرچ ہونے والے امریکی سرمایے پر سوال اُٹھانے کے علاوہ نیٹو کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے کئی یورپی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات بھی سرد مہری کا شکار رہے جن میں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل اور فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں شامل تھے۔
لیکن صدر نے روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو حال ہی میں خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب امریکہ کی حمایت سے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے ایک معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس کے بعد مسلم اکثریتی ملک کوسوو اور بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لیے۔
تنازع کشمیر میں ثالثی اور افغان امن عمل
اگر جنوبی ایشیا کےحوالے سے دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کی پالیسی کی روشنی میں امریکہ نے اس سال فروری میں افغان طالبان سے ایک معاہدہ کیا جس نے افغانستان میں امن عمل کے ذریعے استحکام کے حصول کی امید پیدا کی ہے۔
اپنے منشور کے مطابق صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے اپنی ملاقاتوں میں تنازع کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بارہا پیش کش بھی کی۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خطے میں امن اور سلامتی کے لیے پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ وہ آپس میں مذاکرات کریں۔
صدر ٹرمپ کو کن چیلنجز کا سامنا رہا؟
صدر ٹرمپ کو اس سال کرونا وبا کے باعث معاشی مشکلات، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے علاوہ مواخذے کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
صدر ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے بذریعہ فون یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ جو بائیڈن اور ان کے صاحبزادے کے خلاف بد عنوانی کی تحقیقات کریں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی ایوانِ نمائندگان نے 2019 کے آخر میں صدر کے مواخذے کی منظوری دی تھی تاہم فروری 2020 میں ری پبلکن پارٹی کے اکثریتی سینیٹ نے صدر کو ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر ٹرمپ اپنے دورِ صدارت کے دوران 2016 کے انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے الزامات کا بھی سامنا کرتے رہے۔
امریکی محکمۂ انصاف نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری مئی 2017 میں رابرٹ ملر کو سونپی تھی۔ بعد ازاں ملر تحقیقات کا دائرہ صدر ٹرمپ کی جانب سے تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات تک وسیع ہو گیا تھا۔
رابرٹ ملر نے مارچ 2019 میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ اٹارنی جنرل کو پیش کر دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابات سے قبل یا اس کے دوران روس کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام ثابت نہیں ہوا۔
البتہ ملر نے اپنی رپورٹ میں صدر کو انصاف اور تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے صدر کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش نہیں کی تھی بلکہ یہ معاملہ محکمۂ انصاف پر چھوڑ دیا تھا۔
صدر ٹرمپ اب دوسری مدت کے لیے ری پبلکن جماعت کے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ تین نومبر کو ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے ہے۔