امریکی ذرائع ابلاغ نے بعض سرکاری اہلکاروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرونا کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر افغانستان سے امریکی فوج کا جلد انخلا چاہتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی نیوز' میں پیر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ تقریباً روزانہ اپنے مشیروں سے افغانستان میں کرونا کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر فوج کے حوالے سے فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں اور کرونا کے پھیلاؤ کو افغانستان میں موجود امریکی فوج کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے یہ تحفظات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد میں سست روی پر بھی امریکی حکام تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اس صورتِ حال میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ افغانستان سے امریکی فوج کے جلد انخلا کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق مذکورہ وجوہات کی بنا پر ہی صدر ٹرمپ جلد از جلد افغانستان سے فوج کے انخلا پر اصرار کر رہے ہیں۔ لیکن حکام نے صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ اگر اسی بنیاد پر فوج کا انخلا کرنا مقصود ہے تو اٹلی جیسے ملک سے بھی فوج واپس بلانا پڑے گی جہاں وبا نے زیادہ شدت سے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کابل کے سیاسی تنازع کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو مایوسی ہوئی ہے۔ ان کی توقع تھی کہ امریکہ، طالبان معاہدے سے وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے متعلق 2016 کے صدارتی انتخابی وعدے کو پورا کردیں گے۔
افغانستان میں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گزشتہ سال ہونے صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق اختلافات، طالبان کی طرف سے تشدد کی کارروائیوں میں اضافے اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے افغان امن عمل بظاہر تعطل کا شکار ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ، طالبان معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ معاہدے کے 135 دنوں میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار امریکی اور اتحادی فوج کی تعداد 8600 کر دی جائے گی جبکہ 14 ماہ کے دوران تمام فورسز کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کے باعث عین ممکن ہے کہ امریکہ اس سے پہلے ہی افغانستان میں موجود اپنی فورسز نکال لے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے افغانستان کی صورتِ حال نہایت پیچیدہ ہو گئی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ بتایا یا جارہا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔ لیکن اگر افغانستان میں ٹیسٹس کی شرح بڑھائی جائے تو مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ وبا قیدیوں میں پھیل گئی تو قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ خیال رہے کہ افغانستان کی مختلف جیلوں میں درجنوں طالبان جنگجو قید ہیں جب کہ کئی سرکاری فوجی بھی طالبان کی حراست میں ہیں۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ امریکہ جتنی جلد ممکن ہو سکے افغانستان سے انخلا کرنا چاہتا ہے۔
اُن کے بقول طالبان کے ساتھ طے پانے والا امن معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن افغانستان میں سیاسی عدم استحکام، پرتشدد واقعات میں اضافے سے صورتِ حال خاصی مخدوش ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس مایوسی کے ماحول میں صدر ٹرمپ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر قبل از وقت افغانستان سے فوج واپس بلا سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں مکمل امن قائم ہونے سے قبل امریکی فوج کے انخلا سے افغانستان میں صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
زاہد حسین کے بقول اگر اس دوران طالبان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ پرتشدد کارروائیاں تیز کر دیں گے۔ جس سے لڑائی میں شدت آ سکتی ہے۔