ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے درمیاں پہلا صدارتی مباحثہ آج (پیر) مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجے شروع ہوگا۔ یہ مباحثہ نیویارک شہر کے مضافاتی علاقے ہیمپسٹیڈ میں قائم ’ہافسٹرا یونیورسٹی‘ میں ہوگا۔ مباحثے کا دورانیہ 90 منٹ ہوگا جسے پندرہ پندرہ منٹ کے چھے حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر امیدوار کو پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کے لیے دو منٹ کا وقت دیا جائے گا۔
دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کے امیدوار اس پہلے اہم مباحثے کے لیے بھرپور تیاری کر رہے ہیں، جسے تقریباً ایک کروڑ افراد ٹی وی پر دیکھیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ہلری کلنٹن کو ماضی کے صدارتی مباحثوں کا تجریہ مدد دے سکتا ہے۔ لیکن، ٹرمپ ایسے جملے کہنے کے لیے مشہور ہیں جو دوسرے امیدوار کو لاجواب کر دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اس مباحثے میں بھی ایسی چند باتیں کر دیں جن کے بارے میں ہلری کلنٹن نے سوچا بھی نہ ہو۔
ہافسٹرا یونیورسٹی اس پہلے 2008ء اور 2012ء کے مباحثوں کی میزبانی کر چکی ہے؛ اور یہاں کے طلبا اور طالبات ان مباحثوں میں گرمجوشی سے شریک ہوتے ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس نے ایسے ہی چند طلبا سے بات کی۔
آلی فلاور کا تعلق مئین سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نسلی امتیاز، پولیس کی بربریت، عورتوں کو زچگی کا فیصلہ کرنے کا حق اور ہم جنس پرستوں کے ساتھ برابری کا سلوک ایسے موضوعات ہیں جس پر وہ دونوں امیدواروں کے خیالات جاننا چاہیں گے۔
سٹیفنی ٹورس امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ لیکن، ان کے والد پیرو سے امریکہ آئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ امیگریشن، تارکینِ وطن کے ساتھ برابری کا سلوک اور ماحولیات کا تحفظ ان کے نزدیک ایسے مسائل ہیں جس پر وہ امیدواروں کی سوچ جاننا چاہیں گی۔
نیتھن چاؤ کہتے ہیں کہ امریکہ ہر تہذیب و کلچر کو خوش آمدید کہنے والا ملک ہے۔ لیکن، حالیہ دنوں میں یہاں قدامت پسندی کو فروغ ملا ہے جو کہ درست نہیں؛ خاص طور پر شام سے آنے والے تارکینِ وطن کے بارے میں، جس قسم کی سوچ کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ وہ چاہیں گے کہ اس موضوع پر بات کی جائے۔
مارٹی گلن ہارٹ ایک عمر رسیدہ شہری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امیدوار اندورنی معاملات، معیشت اور تعلیم کے علاوہ مشرقی ملکوں میں امریکہ کی مداخلت کے بارے میں بات کریں۔