پاکستان میں سینیر صحافیوں اور اخبارات کے مدیروں نے اظہار پر پابندیوں کی مذمت کی ہے
سینسر صحافیوں کی جانب جاری ایک بیان کے مطابق منتخب میڈیا گروپ کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایک نشریات پر پابندی کی شروعات کے بعد دیگر نشریاتی اداروں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی بعض تحریکوں کی کوریج سے باز رہیں۔
بدھ کے روز جاری ہونے والے اس بیان پر حکومت کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
اس بارے میں وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے اسکول آف میڈیا لاہور کے ڈاکٹر مغیث الدین، اور ایک صحافی راہنما پرویز شوکت سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر مغیث کا کہنا تھا کہ ملک میں جو لوگ آزادئ صحافت کے علمبردار ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ شاید ایک ادارہ ایسا ہے کہ جو ملک کے دفاعی معاملات کے بارے میں پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف رہا ہے۔ اور اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے یہ کام کرتا رہتا ہے۔ اور یہی تاثر بعض حلقوں میں بہت گہرا ہے۔ جن سے بعض اوقات حکومت بھی اور وہ ادارے بھی فائدہ اٹھا کر اکثر لائن کراس کر جاتے ہیں اور ان میڈیاز کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس بارے میں پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ صورت حال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں مادر پدر آزادی مانگی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے کا آئین مادر پدر آزاد ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ آزادی اور ذمہ داری دونوں کا مطالبہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر مغیث کا مزید کہنا تھا کہ وہ ملک میں صحافت کی آزادی کے لئے مستقبل میں کوئی خطرہ نہیں دیکھتے۔ لیکن صحافیوں کو خود پر ایک سیلف سینسر شپ لگانی پڑے گی اور حکومت کو قومی مفادات کی واضح نشاندہی کرنی ہو گی۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5