’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ماضی میں اوباما انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے پیچیدہ اور اہم تعلقات کے لیے کئی قسم کی حکمتِ عملی آزمائی ۔ مثلاً، اسٹریٹجک شراکت داری کی پیش کش، اقتصادی ترقی کے لیےفزوں تر امداد، سویلین اور فوجی لیڈروں دونوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اب مایوسی کے عالم میں اُس نے پاکستانی قیادت سے اعلانیہ محاذ آرائی کا خطرناک راستہ اپنایا ہے اور دباؤ ڈالنے کے خیال سے امریکی امداد روک لی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قلیل وقتی نقطہٴ نگاہ سے اِس سے کچھ نتائج برآمد ہوں۔ لیکن، اِس سے بے ترتیب پالیسی کا اندازہ ہوتا ہے جو ایک ایسے ملک کی طرف روا رکھی گئی ہے جو اگر عدمِ استحکام اور انتہا پسندی کا شکار ہوگیا تو یہ امریکی سکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا یہ اندازہ ہے کہ پاکستان کے لیے مزید امداد ضائع ہوجائے گی اگر وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے وہ کانگریس میں اُس کا جواز پیش نہیں کرسکے گی۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ محلِ نظربات یہ ہےکہ پبلک میں مطالبات دہرائے جاتے ہیں جبکہ امریکہ کےخلاف جذبات پہلے ہی سے پاکستان میں موجود ہیں اور امریکہ کے ساتھ تعاون کے حامی لوگ پہلے ہی اپنے آپ کومحصور محسوس کرتے ہیں اور یہ اعلان کرنے سے کہ جب تک بعض قدم نہیں اٹھائے جائیں گے، امدادی فنڈز کو روکے رکھا جائے گا۔پاکستان کی مزاحمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستانی لیڈر پہلے ہی سے یہ شبہ کرتے آئے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ صحیح شراکت داری نہیں چاہتا، لیکن لین دین کے تعلقات کا حامی ہے۔
اخبار کے خیال میں بگڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے مسٹر اوباما کا افغانستان سے جلد فوجیں ہٹانے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
اوراگر پاکستان کی حکومت اور فوج پر ملک میں انتہا پسند قوتوں کے خلاف تعاون کرنے پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا تو پھر اُس صورت میں امریکہ کو پہلے سے کہیں زیادہ افغانستان میں موجود رہنا پڑے گا۔
’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کہتا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی کی طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کی وجہ سے جنوبی افغانستان میں نیٹو کی پیش قدمی کے بعد حاصل شدہ فوائد کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ نیٹو کو جنوب پر اپنی توجہ برابر مرکوز رکھنی پڑے گی جب کہ وہ اپنی کاوشیں مشرقی افغانستان پر مرکوز کرنے کی تیاری کر رہا تھا، جہاں بدامنی بڑھتی جارہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ احمد ولی اپنے بھائی حامد کرزئی کے صدر بننے کے بعد برسرِ اقتدار آئے تھے۔ سرکاری طور پر وہ قندھار کی صوبائی کونسل کے صدر تھے لیکن عملی طور پر جنوبی علاقوں بلکہ خود افغانستان میں اُن کا شمار ملک کی طاقت ور ترین شخصیتوں میں ہوتا تھا۔
اِس کے باوجود احمد ولی کرزئی ایک متنازعہ شخصیت تھی اور بعض لوگوں کو شبہ ہے کہ اُن کی ہلاکت سے کوئی خاص فرق پڑے گا۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکہ، یورپی اتحاد، اقوامِ متحدہ اور روس ایسی راہ کی تلاش میں ہیں جس کے ذریعے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین براہِ راست مذاکرات دوبارہ شروع ہو ں۔ اِس کا بنیادی مقصد اُس تجویز کی پیش بندی کرنا ہے جِس کے تحت ستمبر کے مہینے میں اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر فلسطینی مملکت کو تسلیم کرانا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس طرح تسلیم کرانے کی اہمیت بیشتر محض علامتی ہوگی، کیونکہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ مکمل مملکت کا درجہ حاصل کرنے کے کسی بھی اقدام کو امریکہ ویٹو کردے گا، لیکن اگر فلسطینیوں کو جنرل اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل ہوجاتا ہے تو اِس سے فلسطینیوں کی اِس تحریک کو نئی تقویت ملے گی۔
فلسطینیوں نے امریکی اعتراضات کے باوجود اِس اقدام کے لیے اپنے حامیوں کو یکجا کرنے کی مساعی جاری رکھی ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: