وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب میں ہونے والی پہلی عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں شرکت کے لیے اتوار کو ریاض پہنچے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے مشرق وسطیٰ اور مسلمان دنیا کے لیے دور رس مضمرات ہو سکتے ہیں۔
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے دنیا کے تقریباً پچاس سے زائد ممالک کے سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو کہ اپنی نوعیت کی اس پہلی کانفرنس ہے جس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ عرب اور دیگر مسلمان ملک حصہ لے رہے ہیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعز کی دعوت پر اس کانفرنس میں کر رہے ہیں۔
بیان میں اس کانفرنس کے ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس سربراہ اجلاس میں شریک مختلف ملکوں کے راہنماؤں کو اس بات پر غور کرنے کو موقع ملے گا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور شدت پسندی پر کیسے قابو پایا جا سکے۔
بیان میں اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کو کسی مخصوص مذہب،ثقافت، تہذیب یا خطے سے الگ کیا جائے گا۔
یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہورہی ہے جب مشرقی وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں۔
تاہم اس کانفرنس کا مقصد دہشت گردی و انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی راہ ہموار کرنا ہے۔
سعودی عرب نے اسی مقصد کے لیے 30 سے زائد مسلم ممالک پر مشتمل ایک اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے رکھا ہے لیکن اس میں اس کا حریف ملک ایران شامل نہیں جس کی وجہ سے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے فوجی اتحاد کے ذریعے ریاض اسے خطے میں بالا دستی حال کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
تاہم سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور فوج کے سابق بریگیڈیئر سید نذر کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس اتحاد کے خدو خال واضح نہیں ہیں اور فی الحال اس کے مضمرات کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ "اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں البتہ یہ کانفرنس جب ہو جائے گی اور پھر جی سی سی (خلیج تعاون کونسل) کی ایک کانفرنس ہو گی اور پھر 41 ملسم ممالک کا اجلاس ہو گا اس کے بعد کچھ اس کے مقاصد واضح ہوں گے۔"
تاہم بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کا رکن ہوتے ہوئے پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ کس طرح مشرق وسطی ٰ کے عر ب ملکوں کے درمیان توازن رکھ سکے۔
" اس اتحاد جس کا پاکستان حصہ ہے وہ قدامت پسند عرب ملکوں کا اتحاد ہے اور سعودی عرب اس کی قیادت کررہا ہے اور پاکستان کے لیے سب سے بڑاچیلنج ہے کہ کس طرح اس کا حصہ رہنے کے باوجود وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعوں سے بچ سکے گا۔"
پاکستان میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسا فوجی اتحاد جس میں ایران اور دیگر شیعہ اکثریت والی ریاستیں شامل نہیں ہیں اس میں پاکستان کی شمولیت اسلام آباد اور تہران کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک کا عسکری اتحاد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے اور اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف عالمی کوشش کا حامی رہا ہے۔