|
امریکہ کی جامعات میں غزہ جنگ کے خلاف فلسطینیوں کے حامی طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ پیر کو میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے طلبہ پولیس کے روکنے کے باوجود باڑ توڑ کر واپس خیموں میں آگئے۔
ریاست نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں بھی احتجاج کی وجہ سے گریجویشن کی تقریب منسوخ کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایم آئی ٹی کے مکینیکل انجینئرنگ کے طالب علم اور غزہ میں جنگ بندی کی وکالت کرنے والے گروپ کے رکن سام اہنس نے بتایا کہ ان کا گروپ گزشتہ دو ہفتوں سے کیمپ میں ہے اور وہ شہریوں کے قتل کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہمارا کیمپ ایم آئی ٹی کے اسرائیل کی وزارتِ دفاع کے ساتھ براہِ راست تحقیقی تعلقات کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔"
دوسری جانب مظاہرین بوسٹن شہر میں رش کے اوقات میں میساچوسٹس ایونیو کے وسط میں بھی بیٹھ گئے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کی گریجویشن تقریب منسوخ
کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے مظاہروں نے یونیورسٹی کے کیمپس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکام نے پیر کو کہا ہے کہ اگرچہ وہ کیمپس میں مرکزی تقریب منعقد نہیں کریں گے، البتہ طلبہ رواں اور آئندہ ہفتے چھوٹی تقریبات منعقد کر سکیں گے۔
کولمبیا یونیورسٹی میں گریجویشن کی تقریب 15 مئی کو شیڈول تھی اور یونیورسٹی کی صدر منوشے شفیق کو کیمپس کے اسی حصے میں خطاب کرنا تھا جہاں پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک احتجاجی کیمپ کو ختم کیا تھا۔
نیویارک کے شہر مین ہیٹن میں قائم کولمبیا یونیورسٹی کا شمار امریکہ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی نے کہا ہے کہ اس کی گریجویشن تقریب کو منسوخ کرنے کا فیصلہ طلبہ کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: امریکی جامعات میں احتجاج اور عرب دنیا میں خاموشی؛ غزہ کے لوگ کیا سوچتے ہیں؟کولمبیا یونیورسٹی میں زیادہ تر تقریبات مرکزی کیمپس کے جنوبی لان میں ہونا تھیں جو اب تقریباً آٹھ کلومیٹر فاصلے پر موجود اسپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہوں گی۔
یونیورسٹی نے پہلے ہی کیمپس میں طلبہ کی ان پرسن کلاسز منسوخ کر دی تھیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے علاوہ ریاست اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ گریجویشن کی تقریب مضافاتی علاقے میں منتقل کرے گی۔ اس کے علاوہ مشی گن یونیورسٹی اور انڈیانا یونیورسٹی نے بھی مظاہروں کے باعث تقریبات منسوخ کر دی ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی سے حالیہ ہفتوں کے دوران 200 سے زائد فلسطینی حامی مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ کئی دوسری امریکی یونیورسٹیوں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے پھوٹ پڑے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ پر یونیورسٹیوں میں احتجاج میں امن و امان قائم رکھا جائے: بائیڈنامریکہ کی یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (یو ایس سی) نے اس سے قبل اپنی گریجویشن کی مرکزی تقریب منسوخ کر دی تھی جب کہ پولیس کے گھیرے میں آنے اور گرفتاری کی دھمکیوں کے بعد طلبہ نے اتوار کو یو ایس سی میں اپنا کیمپ چھوڑ دیا تھا۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے خیمہ زن طلبہ کا مطالبہ ہے کہ جامعات اُن کمپنیوں سے مالی طور پر الگ ہو جائیں جو اسرائیل سے تجارت کرتی ہیں یا جو جنگ جاری رکھنے میں اعانت فراہم کرتی ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصوں پر حملہ کر کے تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنالیا تھا۔
اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملے کیے جو تاحال جاری ہیں۔ ان حملوں میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق 34,500 فلسطینیی ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق حماس نے مصر اور قطر کی جنگ بندی کی تجویز پر رضا مندی ظاہر کی ہے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ تجویز اس کے اہم مطالبوں کو پورا نہیں کرتی اور تل ابیب نے غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملے کا آغاز کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے 'اے پی' کی گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی جامعات سے تقریباً 2100 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مظاہروں سے نمٹنے کےجامعات کے مختلف طریقے
مظاہروں سے نمٹنے کے لیے جامعات نے مختلف طریقے اپنائے ہیں جن میں مظاہرین کے خلاف تادیبی کارروائی کی دھمکیاں شامل ہیں۔
شکاگو کے 'اسکول آف دی آرٹ انسٹی ٹیوٹ' نے اتوار کو ایک فیس بک پوسٹ میں کہا ہے کہ اس نے مظاہرین کو "تعلیمی منظوری اور خلاف ورزی کے الزامات سے معافی" کی پیش کش کی ہے بشرطیکہ وہ وہاں سے ہٹ جائیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے عبوری صدر ایلن گاربر نے طلبہ کو خبردار کیا کہ ہارورڈ یارڈ میں فلسطینی حامی کیمپ میں حصہ لینے والوں کو "غیر ارادی رخصت" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ طلبہ کو کیمپس میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ اپنی رہائش سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ امتحانات دینے سے قاصر ہو سکتے ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔