امریکی ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ میناپولس میں پولیس کی ایک کارروائی میں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد اس کارروائی میں شریک تین پولیس افسروں کے خلاف اعانتِ قتل اور اس پولیس افسر کے خلاف جس کے گھٹنے کے نیچے جارج فلائیڈ نے دم توڑا الزامات بڑھا کر 'سیکنڈ ڈگری مرڈر' کر دیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے صرف ایک پولیس افسر کے خلاف 'تھرڈ ڈگری مرڈر' اور 'ہومی سائیڈ' کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں پولیس کی کارروائی کے دوران سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے اس واقعے نے امریکہ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس میں نہ صرف سیاہ فام بلکہ ہر رنگ و نسل کے لوگوں نے شرکت کی ہے۔ اور سب کا یہ کہنا ہے کہ نا انصافی جہاں بھی ہو گی لوگ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
ان میں امریکہ میں قائم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز یا کیئر بھی شامل ہے جو شہری حقوق کی علمبردار ایک ایسی تنظیم ہے جو پورے امریکہ میں سرگرم ہے۔
ثروت حسین امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر سین انتونیو کیلئے اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ نے ان سے ان کی تنظیم کی ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کے مشن کو دیکھا جائے تو وہ بلا تفریقِ مذہب ہر اس گروپ کا ساتھ دیتی ہے جو انسانی اور شہری حقوق کے حصول کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔
ثروت حسین نے کہا کہ گذشتہ کئی روز سے امریکہ میں جاری مظاہروں کا مقصد امریکہ کی سیاہ فام آبادی کو اس کا جائز مقام دلانا اور پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والےاس شخص کو انصاف دلانے کی جدوجہد کی حمایت کرنا ہے جس کا تعلق سیاہ فام خاندان سے ہے۔
ثروت حسین نے کہا کہ ان کی تنظیم ایسے کسی احتجاج میں شریک ہونے سے پہلے اس کا اہتمام کرنے والوں کے ساتھ پوری طرح رابطہ کرتی ہے اور موجودہ مظاہروں میں شامل ہونے سے پہلے بھی ان تمام لوگوں سے ان کے اصل مقصد کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں، اور پھر انصاف کے حصول کی اس جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں افریقی امریکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات کافی پرانی ہیں اور ان کا زیادہ تر تعلق پولیس کے رویے سے ہوتا ہے۔ بقول ان کے، یہ صرف سفید فام اور سیاہ فام کا فرق نہیں ہے بلکہ اس میں نسلی امتیاز شامل ہو جاتا ہے۔ اس نسلی امتیاز کا تعلق امریکہ کی انتہائی ابتدائی تاریخ سے ہے جب سیاہ فام غلام بنائے جاتے تھے۔
ڈاکٹر زاہد بخاری سنٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی کے ڈئریکٹر ہیں۔ امریکی تاریخ کے بارے میں اپنی تحقیق کی روشنی میں انھوں نے بتایا کہ اس بارے میں دو طرح کے نقطہ نظر ہیں۔ ایک تو دو ڈھائی سو سال کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ سفید فام آبادکار یورپ سے آئے جہاں مذہب پر بھی سختی تھی اور قحط بھی تھا اور یہ نئی دنیا کی تلاش میں نکلے۔ اور اسے دریافت کر کے یہاں تہذیب بھی سکھائی اور نیا نظام بھی دیا۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی قائم کیا۔
ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا کہ اگرچہ شروع میں یہاں صرف اینگلو سیکسن تھے مگر بعد میں دیگر طبقات بھی شریک ہوتے گئے۔ دوسرا نکتہ نظر بھی وہ کہتے ہیں کہ کافی مضبوط ہے اور اس پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ اصل میں یہ آبادکار ہیں باہر سے آکر آباد ہو گئے۔ اور جو مقامی نیٹوو امریکن تھے، انہیں تہذیب سکھانے کے نام پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک کیے۔ اور پھر جو افریقہ سے غلام لائے گئےان کی مدد سے آبادکاری اور ترقی کا سارا کام کیا۔ شہر بنائے حتیٰ کہ وہائٹ ہاؤس کی تعمیر میں بھی یہی لیبر استعمال ہوئی۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ اسی کے نتیجے میں ٹکراؤ پیدا ہوتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کمیونیٹیز کو حقوق ملتے گئے۔ پہلے خواتین کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، وہ دیا گیا۔ اور پھر ساٹھ کی دہائی میں افریقی امریکیوں کو بھی یہ حق مل گیا۔
ثروت حسین نے کہا کہ اس کے باوجود افریقی امریکیوں کو ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں آبادی کی تقسیم اگر اتنی واضح ہو جیسا کہ امریکہ میں سیاہ اور سفید فام میں ہے تو امتیاز مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ امریکہ میں قوانین موجود ہیں پھر بھی افریقی امریکی ناانصافی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد بخاری کی نظر میں امریکی قوانین ہی اس امتیاز کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم، گذشتہ کئی روز کے مظاہروں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ امریکہ میں آئین کی پہلی ترمیم کے تحت حاصل ہونے والی آزادیِ اظہار کا استعمال ہر امریکی کرتا ہے اور اس میں رنگ و نسل کا امتیاز آڑے نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں میں آج تک سیاہ اور سفید فام کی تفریق مٹ گئی تھی اور ہر وہ امریکی جو حق کی خاطر آواز بلند کرنے کا حامی تھا امریکہ بھر میں جاری اس احتجاج میں شامل تھا۔