|
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی نے احتجاج اور مظاہرے ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما شوکت نواز میر نے مظفر آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مطالبات کی منظوری کے بعد احتجاج ختم کر رہے ہیں۔
احتجاج ختم کرنے کے اعلان کے بعد مظفر آباد کی جانب لانگ مارچ کی شکل میں آںے والے افراد واپس اپنے علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں جب کہ بیشتر سڑکیں کھول دی گئی ہیں البتہ بعض سڑکوں پر اب بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔
سیکیورٹی صورتِ حال کے پیش نظر مظفر آباد میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور بیشتر علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں۔
اسی طرح کئی علاقوں میں کاروباری مراکز اور تمام چھوٹی بڑی دکانیں بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے بہت کم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ روز مظفر آباد میں احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں تین نوجوان ہلاک ہوئے تھے جن کی نمازِ جنازہ منگل کی دوپہر ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے مارچ کی شکل میں آںے والے کئی افراد مظفر آباد پہنچے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی ہلاکت کی وجہ جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
مظاہرین کے کیا مطالبات تھے؟
پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اور آٹے پر سبسڈی دینے کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی گزشتہ کئی روز سے احتجاج کر رہی تھی۔
احتجاج کے دوران ایک پولیس افسر سمیت چار افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
پرتشدد احتجاج کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری انوارالحق نے گزشتہ روز بجلی اور آٹے پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت نے عوامی احتجاج کے بعد آٹے کی قیمتوں میں فی من 1100 روپے کی سبسڈی دی ہے جس کے بعد ایک من آٹے کی قیمت 3100 سے کم کر کے دو ہزار روپے فی من کر دی گئی ہے۔
اسی طرح ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کا نرخ تین روپے فی یونٹ چارج ہو گا جب کہ 100 سے 300 یونٹ کے لیے نرخ پانچ روپے اور 300 سے زائد کے لیے چھ روپے فی یونٹ بجلی کا نرخ مقرر کر دیا گیا ہے۔
کمرشل ٹیرف کے لیے ایک سے 300 یونٹ کے لیے 10 روپے اور 300 سے زائد یونٹ کے لیے 15 روپے فی یونٹ کا نرخ رکھا گیا ہے۔