بھارت اور پاکستان کے ساتھ ہی نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر کے روز عید الفطر منائی گئی۔ اس موقعے پر عیدگاہوں، مساجد اور خانقاہوں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے عید کی نماز ادا کی اور دعائیہ مجالس میں شرکت کی۔
تاہم، وادی کشمیر میں ان اجتماعات کے فوراً بعد کئی علاقوں میں اضطرابی کیفیات پیدا ہوگئیں جب لوگوں باالخصوص نوجوانوں نے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا جہاں پہلے سے موجود حفاظتی دستوں نے ان کا راستہ روکنے کے لئے بانس کے ڈنڈے چلائے اور آنسو گیس کے گولے داغے۔
مظاہرین نے جواباً ان پر پتھراؤ کیا۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ بعض مقامات پر حفاظتی دستوں پر سنگباری کی پہل نوجوانوں کی ٹولیوں کی طرف سے ہوئی۔
بہرحال، طرفین کے درمیان گرمائی دارالحکومت سرینگر، شمال مغربی شہر سوپور اور جنوبی کشمیر کے اننت ناگ، کلگام، شوپیان اور راجپورہ علاقوں اور چند دوسری جگہوں پر جھڑپوں کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔
درجنوں افراد جن میں کئی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں زخمی ہوگئے۔ نیز ان علاقوں میں عید کی روایتی سرگرمی متاثر ہوئی۔ پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کی اننت ناگ میں ایک ڈپٹی سُپرانٹنڈنٹ سمیت پانچ پولیس افسر زخمی ہوگئے۔
مظاہرین میں سے بھی کئی ایک کے چوٹیں آئیں۔ ضلع بارہمولہ کے پلہالن علاقے میں بھی سرینگر-مظفر آباد روڑ پر مظاہرین اور حفاظتی دستوں کے درمیان تصادم کی اطلاع ملی ہے۔
سرینگر کے مضافات میں واقع چاڈورہ علاقے میں سینکڑوں افراد نے آزادی مارچ میں حصہ لیا اور پھر اُس قبرستان پر جمع ہوگئے جہاں اس سال مارچ میں حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والے دو مقامی نوجوان آسودہٴ خاک ہیں۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین ماہ پہلے شروع ہوئے افراتفری اور تشدد کے تازہ سلسلے کے دوران مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوموں پر حفاظتی دستوں کی فائرنگ اور دوسری کارروائیوں میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ عسکریت پسندوں کے حملوں اور ان کے اور مسلح افواج کے درمیان ہوئی جھڑپوں میں دو درجن اہلکار اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں جنگجو مارے گئے ہیں۔
لوگوں میں پائے جانے والے غم و غصے اور بد اعتمادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جمعرات کی شب سرینگر کی جامع مسجد کے باہر سادہ لباس میں تعینات ایک پولیس افسر محمد ایوب پنڈت کو ایک ہجوم نے دبوچ کر اس قدر پیٹا کہ اُس کی موقعے ہی پر موت ہوگئی۔ تاہم، اس واقعے کی کشمیر اور صوبے کے باہر سیاسی اور سماجی حلقوں نے شدید مذمت کی جبکہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں نے اسے بہیمانہ اور ناقابلِ قبول حرکت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی اقدار اور روایات اور مذہبِ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
پیر کو عید کے موقعے پر تشدد میں اضافے کے خدشے کے پیشِ نظر غیر معمولی حفاظتی بندوبست کے تحت جگہ جگہ مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری بٹھا دی گئی تھی۔ اس سے پہلے بیشتر آزادی پسند راہنماؤں اور سرکردہ کارکنوں کی اُن کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا، جبکہ قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چئیرمین محمد یاسین ملک کو گرفتار کرکے سرینگر کی مرکزی جیل میں بند کردیا گیا۔
کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے خانہ نظر بندی کے دوراں، سرینگر کی مرکزی عیدگاہ میں جمع ہونے والے lفراد سے فون کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے استصوابِ رائے کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ ’’قدغنیں اور بربریت کشمیریوں کو اپنا بنیادی حق یعنی حقِ خود اِرادیت مانگنے سے نہیں روک سکتیں‘‘۔
اس موقعے پر ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں اُن افراد کے خاندانوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا جو حالیہ ہفتوں میں حفاظتی دستوں کی کارروائیوں میں مارے گئے۔
سرینگر میں صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ عید کا دِن مجموعی طور پر پُرامن گزرا اور لاکھوں مسلمانوں نے عیدگاہوں اور مساجد وغیرہ میں نمازِ عید ادا کی۔ ترجمان کے مطابق، سب سے بڑا اجتماع سرینگر کی درگاہ حضرت بل پر ہوا۔
وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شہر کے سونہ وار علاقے کی سعید صاحب مسجد میں نمازِ عید اد کی۔